اصحاب الرسول صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
میں دینِ اسلام قبول کرتے چلے گئے تھے۔ اورپھرحضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعدخلیفۂ سوم کی حیثیت سے جب حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے منصبِ خلافت سنبھالاتوکیفیت یہی تھی کہ اسلامی ریاست کارقبہ بہت زیادہ وسعت اختیارکرچکاتھا…مزیدیہ کہ اب خودحضرت عثمان ؓ کے دور میں بھی کافی فتوحات ہوئیں…جس کے نتیجے میں مزیدغیرعرب باشندے مسلمان ہوتے چلے گئے…جوکہ دینِ اسلام کی حقانیت وصداقت کابہت بڑاثبوت تھاکہ مشرق ومغرب میں جوکوئی بھی اپنی آنکھوں سے تعصب کی عینک اتارکرسچے دل اورخلوصِ نیت کے ساتھ قرآنی تعلیمات کامطالعہ کرے ٗ وہ ان پاکیزہ تعلیمات سے متأثرہوئے بغیرنہیں رہ سکتا… لیکن اس کے ساتھ ہی ’’قرآن کریم‘‘کے حوالے سے اس موقع پرایکِ قابلِ تشویش صورتِ حال یہ پیش آئی کہ دوردرازکے علاقوں سے ایسی خبریں موصول ہونے لگیں کہ قرآن کریم کے بعض کلمات کے تلفظ کے معاملے میں لوگوں میں اختلاف کی نوبت آرہی ہے۔ دراصل قرآن کریم کے بعض کلمات اس طرح تحریرتھے کہ انہیں ایک سے زائدطریقے سے پڑھاجاسکتاتھا(بالخصوص جبکہ اُس دورمیں حروف پرنقطے وغیرہ بھی نہیں لگائے جاتے تھے)قرآن کریم چونکہ عربی زبان میں ہے لہٰذااہلِ زبان یعنی عربوں کیلئے تواس میں کوئی دقت نہیں تھی،کیونکہ وہ قرآنی کلمات کے معانی ومفاہیم سے واقف تھے،لہٰذاوہ بخوبی جانتے تھے کہ کس کلمے کوکس طرح پڑھناہے…البتہ جواہلِ زبان نہیں تھے،ان کیلئے یہ معاملہ کافی نازک تھا…بالخصوص دوردرازکے ایک علاقے ’’آرمینیا‘‘کے محاذپر مسلمان