اصحاب الرسول صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
اُس ابتدائی دورمیں مکہ میں مٹھی بھرمسلمانوں کومشرکین کے ہاتھوں جس طرح اذیت کاسامناتھا…اس چیزکودیکھتے ہوئے رسول اللہﷺ نے مسلمانوں کوملکِ حبشہ کی جانب ہجرت کرجانے کامشورہ دیاتھا،جس پر(نبوت کے پانچویں سال)یکے بعددیگرے مسلمانوں کی دومختلف جماعتیں مکہ سے حبشہ کی جانب ہجرت کرگئی تھیں۔ ایسے ہی ایک موقع پرعمرنے اپنے قریبی عزیزوں میں سے ایک مسلمان شخص کوجب بے بسی ولاچاری کی کیفیت میںمکہ سے حبشہ کی جانب ہجرت کرتے دیکھاتوبڑی ہی حسرت کے ساتھ اسے ہجرت کایہ ارادہ ملتوی کرکے مکہ میں ہی رک جانے کامشورہ دیا…جس پراس شخص نے بھی بڑی حسرت کے ساتھ یہ جواب دیاکہ ’’اے عمر!کاش تم نے ہمیں ناحق اس قدرنہ ستایاہوتا…توہم یوں بے وطن ہوجانے پرمجبورنہ ہوتے‘‘۔ یہ بات سن کرعمرپہلی باراپنی تمامترترش مزاجی کے باوجوددکھی ہوگئے…اپنی قوم کویوں ٹوٹتے اوربکھرتے ہوئے …اورپھربے وطن ہوتے ہوئے دیکھنا…یہ چیزعمرکیلئے ا نتہائی صدمے کاباعث بنی،جس کی وجہ سے وہ شب وروزاسی پریشانی میں مبتلارہنے لگے کہ آخریہ معاملہ کس طرح حل ہوگا؟اسی کیفیت میں وقت گذرتارہا…اورپھربالآخراس کے اگلے سال،یعنی جب نبوت کاچھٹاسال چل رہاتھا،ایک روزعمرکے صبرکاپیمانہ لبریزہوگیا…سوچاکہ جس شخص کی وجہ سے میری قوم یوں ٹوٹتی اوربکھرتی جارہی ہے…اسی شخص کو(نعوذباللہ) قتل کردیاجائے…اوریوں اس مشکل کاہمیشہ کیلئے خاتمہ کردیاجائے…یہی بات سوچ کروہ ایک روزسخت گرمی کے موسم میں اورتپتی ہوئی دوپہرمیں ننگی تلوارہاتھ میں لئے ہوئے چل دئیے۔ راستے میںنُعیم بن عبداللہ(۱) نامی ایک شخص کی ان پر نظرپڑی تووہ ٹھٹھک کررہ ------------------------------ (۱)نُعیم بعدمیں مسلمان ہوگئے تھے، ۱۵ھمیں جنگِ یرموک کے موقع پر شہیدہوئے(الاستیعاب:۲۵۹۹)۔