اصحاب الرسول صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
حواس گنوابیٹھا،سارادن بیٹے کے غم میں دردناک اشعارگنگناتا…اس کی تلاش میں نگری نگری…بستی بستی…ماراماراپھرتا… اُس دورکے دستورکے مطابق اس بچے کوغلام بنالیاگیا،اورپھرکچھ ہی عرصے بعدجب ’’عُکاظ‘‘کامشہورسالانہ میلہ لگاتوان لٹیروں نے اس کمسن نوجوان کووہاں اس میلے میں فروخت کی غرض سے پیش کیا،اُس وقت اس میلے میں قریشِ مکہ کے ناموراورخوشحال تاجروں میں سے چندافرادخریداری کی غرض سے وہاں موجودتھے،انہی میں سے ’’حکیم بن حزام بن خویلد‘‘(ام المؤمنین حضرت خدیجہ بنت خویلدرضی اللہ عنہاکے بھتیجے)نامی تاجر نے عکاظ کے اس میلے میں چندکمسن غلام خریدے ٗجن میں حارثہ اوراس کی بیوی سُعدیٰ کایہ گمشدہ نورِنظر’’زید‘‘بھی شامل تھا۔ حکیم بن حزام (بعدمیں مسلمان ہوگئے تھے ٗ لہٰذا’’رضی اللہ عنہ‘‘)ان غلاموں کوہمراہ لئے ہوئے واپس مکہ پہنچے ،ان کی پھوپھی خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہاکوجب اپنے بھتیجے کی آمدکی اطلاع ملی،تووہ ملاقات ٗ نیزخیریت دریافت کرنے کی غرض سے آئیں،تب حکیم نے انہیں بتایاکہ’’پھوپھی جان!میں نے عکاظ کے میلے سے چندغلام خریدے ہیں،جوکہ کم سن ہیں ، کیونکہ کم سن غلام کی خودتربیت کی جائے توآئندہ چل کراس کے ساتھ مفاہمت اور تعامل میں سہولت رہتی ہے…‘‘اورپھرحکیم نے مزیدکہا’’پھوپھی جان ان میں سے کوئی ایک غلام میری طرف سے آپ کیلئے ہدیہ ہے،آپ کی خدمت انجام دے گا،گھریلوکام کاج کردیاکرے گا…لہٰذاآپ خودپسندکرلیجئے‘‘ تب خدیجہ نے ان سب غلاموں پرسرسری نظرڈالی توانہیں ’’زید‘‘کی شخصیت اورسراپامیں خاندانی شرافت ونجابت کے آثارنمایاں دکھائی دئیے،لہٰذاانہوں نے زیدکوپسندکرلیا،اور