اصحاب الرسول صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
خدمت ٗ صحبت ٗ علمی استفادہ ٗ اورکسبِ فیض کایہ نتیجہ تھاکہ تمام دینی علوم بالخصوص قرآنی علوم میں انہیں غیرمعمولی دسترس حاصل تھی ،نیزقرآن کریم کی تلاوت بھی نہایت ہی مؤثراوردل نشیں اندازمیں کیاکرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ بعض اوقات رسول اللہﷺخودان سے فرمائش کرکے ان کی تلاوت سنا کرتے تھے۔ چنانچہ عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: قَالَ لِي رَسُولُ اللّہِﷺ: اِقرَأ عَلَيَّ القُرآن ، قُلتُ: یَا رَسُولَ اللّہ! أقْرَأ عَلَیکَ وَعَلَیکَ أُنزِلَ؟ قَالَ: اِنِّي أشْتَھِي أن أسْمَعَہٗ مِن غَیرِي ، فَقَرأتُ عَلَیہِ سُورَۃَ النِّسَاء ، حَتّیٰ بَلَغتُ ((فَکَیفَ اِذَا جِئْنَا مِن کُلِّ أُمَّۃٍ بِشَھِیْدٍ وَجِئنَا بِکَ عَلَیٰ ھٰؤلَآئِ شَھِیْداً)) فَقَالَ: حَسْبُکَ ، فَالتَفَتُّ اِلَیہِ ، فَاِذَا عَینَاہُ تَذْرِفَانِ ۔(۱) یعنی:(ایک باررسول اللہﷺنے مجھ سے فرمایا’’مجھے قرآن پڑھ کرسناؤ‘‘ میں نے عرض کیا’’اے اللہ کے رسول!میں آپ کے سامنے قرآن پڑھوں؟ حالانکہ یہ قرآن توآپ ہی پرنازل کیاگیاہے؟(یعنی میری اتنی مجال کہاں؟) آپؐ نے فرمایا’’مجھے قرآن کسی دوسرے سے سننااچھالگتاہے‘‘تب میں نے آپؐ کے سامنے سورۃ نساء کی تلاوت شروع کی، یہانتک کہ جب میں اس آیت پرپہنچا: (فَکَیفَ اِذَا جِئنَا مِن کُلِّ أُمَّۃٍ بِشَھِیْدٍ وَجِئْنَا بِکَ عَلَیٰ ھٰؤلَآئِ شَھِیْداً) (۲)یعنی(اس وقت [ان کا]کیاحال ہوگاجب ہم ہرامت میں سے ایک گواہ لے کرآئیں گے،اور[اے نبیؐ]ہم آپ کوان لوگوں کے خلاف گواہ کے طورپرپیش کریں گے) تب آپؐ فرمانے لگے’’بس کرو‘‘تب میں نے آپؐ کی ------------------------------ (۱)صحیح بخاری[۵۰۵۰][۵۰۵۵][۵۰۵۶]کتاب التفسیر۔باب قول اللہ تعالیٰ: فکیف اذا جئنا من کل أمّۃ بشہید… ،نیز:مسلم[۸۰۰]ودیگرکتبِ حدیث وتفسیر۔ (۲)النساء[۴۱]