اصحاب الرسول صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
زمانے سے ہی دینِ برحق قبول کرناچاہتے تھے…لیکن …ایسانہیں ہوسکا۔البتہ اس کے باوجودوہ ہمیشہ مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی کااظہارکرتے رہے۔مسلمانوں کی حفاظت وسلامتی سے متعلق جوکچھ بھی ان سے بن پڑا…ہمیشہ ہی اس سلسلے میں حتیٰ المقدورکوشش و جستجو میں مشغول رہے… نبوت کے تیرہویں سال جب ہجرتِ مدینہ کاحکم نازل ہواتورسول اللہﷺودیگرتمام مسلمان اپنے آبائی شہرمکہ کوخیربادکہتے ہوئے مدینہ چلے آئے تھے،اورپھراس ہجرت کے بعدمحض اگلے سال ہی مشرکینِ مکہ مسلمانوں کونیست ونابودکردینے کی غرض سے مدینہ کی جانب رواں دواں ہوگئے تھے،اورپھر مدینہ شہرسے تقریباًایک سوساٹھ کلومیٹرکے فاصلے پر ’’بدر‘‘ کے مقام پرمسلمانوں اورمشرکینِ مکہ کے مابین اولین معرکہ پیش آیاتھا…اس موقع پر حضرت عباس مشرکینِ مکہ کے ہمراہ بادلِ ناخواستہ اورمجبوراًچلے آئے تھے…جبکہ ان کی دلی ہمدردیاں مسلمانوں کے ساتھ تھیں…اوریہ مسلمانوں کے خلاف کسی بھی قسم کی جارحیت اورلشکرکشی کے سخت مخالف تھے… اس موقع پررسول اللہﷺنے اپنے صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کویہ تاکیدفرمادی تھی کہ’’ دورانِ جنگ اگرکسی کاعباس کے ساتھ آمناسامناہوجائے …تووہ انہیں قتل نہ کرے…‘‘کیونکہ آپ ﷺکواس حقیقت کاخوب احساس وادراک تھاکہ عباس خلوصِ دل کے ساتھ مسلمان ہوناچاہتے ہیں،وہ مسلمانوں کے بڑے خیرخواہ ہیں ٗاوران کادل مسلمانوں کے ساتھ ہی دھڑکتاہے … اورپھرغزوۂ بدرکے اختتام پرکیفیت کچھ یوں تھی کہ مشرکینِ مکہ میں سے سترافرادمارے گئے تھے،سترہی مسلمانوں کے ہاتھوں قیدی بنے تھے،جبکہ باقی لوگ جان بچاکرواپس لوٹ