اصحاب الرسول صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
حضرت عباسؓ اُس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے … اپنے پرانے دین پرہی قائم تھے… لیکن اپنے بھتیجے (یعنی رسول اللہﷺ)کے ساتھ محبت وشفقت کایہ عالم تھاکہ انہوں نے اس بات کوگوارانہیں کیاکہ اس قدرخطرہ مول لیتے ہوئے ان کابھتیجااکیلاوہاں جائے… ایک توراستے میںقدم قدم پرمشرکینِ مکہ کی طرف سے خطرہ … اوراس کے علاوہ مزیدیہ کہ انہیں کچھ اندازہ ہوچکاتھاکہ اس ملاقات میں آپؐ شایداب مستقل طور پر مکہ سے مدینہ منتقل ہوجانے کے بارے میں ان لوگوں کے ساتھ کچھ گفت وشنیدکریں گے اوراس سلسلے میں کچھ اہم معاملات طے کئے جائیں گے…! چونکہ یہ انتہائی نازک معاملہ تھا…لہٰذاحضرت عباسؓ کی یہ خواہش تھی کہ اس اہم اورحساس ترین معاملے پرگفت وشنیدکے موقع پروہ بھی موجودہوں اورفریقین کے مابین اس بارے میں جوکچھ بھی طے ہووہ ان کی موجودگی میں ہو… تاکہ ان کاپیارابھتیجاکسی مشکل میں نہ پھنس جائے…! چنانچہ آپﷺاس موقع پراپنے مشفق ومہربان چچاکے اصرارکودیکھتے ہوئے انہیںاپنے ہمراہ لے گئے تھے،اوروہاں منیٰ میں اس ملاقات اورپھربیعت کے موقع پرانصارِمدینہ نے آپؐکومستقل مدینہ چلے آنے والے کی دعوت دی تھی ٗ تب رسول اللہﷺ اور انصارِ مدینہ کے مابین اس حوالے سے طے کئے جانے والے معاملات اورضروری گفت وشنیدکے موقع پرحضرت عباسؓ بھی موجودتھے…یقینااس سے حضرت عباسؓ کے دل میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ والہانہ تعلق ٗ اورآپؐ کی خیریت وسلامتی کے حوالے سے فکر ٗ تشویش ٗ اورخیرخواہی کے جذبات کی خوب عکاسی ہوتی ہے۔ ٭حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ دینِ اسلام کے ظہورکے بعدبہت ابتدائی