اصحاب الرسول صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
اوران کی باہمی گفتگوغارکے اندرسنائی دینے لگی۔اس قدرنازک ترین صورتِ حال کی وجہ سے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ پریشان ہوگئے،اورعرض کیاکہ ’’اے اللہ کے رسول! مجھے اپنی کوئی فکرنہیں ہے، البتہ مجھے یہ غم کھائے جارہاہے کہ کہیں آپ کوکوئی تکلیف نہ پہنچے، کیونکہ اگرآپ کوکچھ ہوگیاتوپھرپوری امت کاکیا بنے گا…؟‘‘یعنی یہ توپوری امت کا خسارہ ہوگا، تب آپﷺ نے انہیں تسلی دیتے ہوئے ارشادفرمایا: مَا ظَنُّکَ یَا أبَا بَکْر بِاثْنَیْن ، اَللّہُ ثَالِثُھُمَا؟ یعنی’’اے ابوبکر!ایسے دوانسان کہ جن کے ساتھ تیسراخوداللہ ہو ٗ ان کے بارے میں تمہاراکیاگمان ہے؟‘‘ مقصدیہ کہ ہم محض دونہیں ہیں، بلکہ ہمارے ساتھ اللہ کی معیت ونصرت بھی شاملِ حال ہے، لہٰذافکرکی کوئی بات نہیں۔ اسی واقعے کی طرف قرآن کریم میں اس طرح اشارہ کیاگیاہے: {اِلّا تَنصُرُوہُ فَقَد نَصَرَہُ اللّہُ اِذ أخْرَجَہُ الَّذِینَ کَفَرُوا ثَانِيَ اثْنَینِ اِذ ھُمَا فِي الغَارِ اِذ یَقُولُ لِصَاحِبِہٖ لَا تَحْزَن اِنَّ اللّہَ مَعَنَا} (۱) ترجمہ:(اگرتم ان(نبی ﷺ) کی مددنہیں کروگے ٗ تواللہ نے ہی ان کی مددکی اُس وقت جبکہ انہیں کافروں نے نکال دیاتھا ٗ دومیں سے دوسرا ٗ جبکہ وہ دونوں غارمیں تھے ، جب یہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ غم نہ کرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے) رسول اللہﷺ ٗ نیزآپؐ کے ہمسفریعنی حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ٗ دونوں تین دن تین رات مسلسل اس غارمیں مقیم رہے، اس کے بعدوہاں سے آگے منزلِ مقصودیعنی مدینہ کی جانب روانگی ہوئی ،طویل سفر کے بعدآخریہ دونوں حضرات نبوت کے چودہویں سال، بتاریخ ۸/ربیع الاول ،بروزپیر،مدینہ کے مضافات میں پہنچ گئے۔ ------------------------------ (۱)التوبہ[۴۰]