اصحاب الرسول صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایاکہ ’’پہلے ذرہ اپنے اس ساتھی کی خبرلے لو‘‘تب ہم نے دیکھااُس گڑھے میں طلحہ بیہوش پڑے تھے،ایک ہاتھ تیروں سے بری طرح چھلنی تھا اور بالکل مفلوج ہوچکاتھا،تمام جسم لہولہان تھا،تب ہم نے طلحہ کووہاں سے اٹھاکرنسبۃً مناسب مقام کی طرف جب منتقل کیاتواس وقت ہمیں ان کے جسم پرمختلف مقامات پرچھوٹے بڑے ستر سے زائدزخم نظرآئے…‘‘ غزوہ ٔاُحدکے اس تاریخی موقع پرحضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ نے جس طرح جاں فشانی وسرفروشی کامظاہرہ کرتے ہوئے رسول اللہﷺکی طرف سے مدافعت وحمایت کامبارک ترین فریضہ سرانجام دیاتھا…یقینااسی کانتیجہ تھاکہ آپؐ نے ایک باران کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ ارشادفرمایاتھا: مَن سَرَّہٗ أن یَنْظُرَ اِلَیٰ شَھِیدٍ یَمْشِي عَلَیٰ وَجہِ الأرضِ فَلیَنْظُر اِلَیٰ طَلحَۃَ بنِ عُبَیدِ اللّہ ۔ (۱) یعنی’’جس کسی کی یہ خواہش ہوکہ وہ کسی ایسے شہیدکودیکھے جو[زندہ سلامت]زمین پرچل پھررہاہو ٗ تووہ طلحہ بن عبیداللہ کودیکھ لے‘‘۔ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے سامنے جب بھی غزوۂ اُحدکاتذکرہ ہوتاتوآپؓ بیساختہ فرمایاکرتے تھیـ: ذلِکَ کُلُّہُ کَانَ یَومُ طَلحَۃ ۔ یعنی’’وہ تمام دن توبس طلحہ ہی کا دن تھا‘‘۔ مقصدیہ کہ اُس روزطلحہ نے جس طرح سرفروشی وجاں نثاری کامظاہرہ کیاتھا اُس کی وجہ سے گویاغزوۂ اُحداورطلحہ بس ہمیشہ کیلئے لازم وملزوم ہوکررہ گئے ہیں۔ شب وروزاورآتے جاتے موسموں کایہ سفرجاری رہا…حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ ------------------------------ (۱) ترمذی [۳۷۳۹]کتاب المناقب،باب مناقب ابی محمد طلحہ بن عبیداللہرضی اللہ عنہ۔