اصحاب الرسول صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
زوروں پرتھی،خریدوفروخت کاسلسلہ عروج پرتھا،ان کے ساتھی بڑی دلچسپی کے ساتھ خوب بڑھ چڑھ کربولیاں لگارہے تھے…بے پناہ رش اورتاجروں کے اس شورکی وجہ سے کان پڑی آوازسنائی نہیں دے رہی تھی…(۱) اسی دوران اچانک طلحہ بن عبیداللہ کی سماعت سے ایک ایسی آوازٹکرائی جس میںمحض ان کیلئے ہی نہیں…بلکہ تمام دنیائے انسانیت کیلئے بڑی خوشگوارتبدیلی کاپیغام تھا… ہوایہ کہ ملکِ شام کے اُس بازارمیں خریدوفروخت کے اس سلسلے کے دوران انہوں نے دیکھاکہ ایک ضعیف ونحیف اورعمررسیدہ راہب (پادری) ہرآنے جانے والے کوروک روک کراس سے یہ پوچھ رہاہے کہ ’’ارے کوئی مجھے بتائے کہ تاجروں کی اس بھیڑمیں کیاکوئی ایساتاجربھی ہے جس کاتعلق مکہ کی سرزمین سے ہو؟‘‘ بوڑھے راہب کی زبانی یہ سوال سن کرطلحہ بن عبیداللہ چونک اٹھے…اوراس کے قریب جا کر کہاکہ’’جی ہاں…میں مکہ کاباشندہ ہوں‘‘ تب اس بوڑھے راہب نے ان سے دریافت کیا’’کیاتمہارے شہرمکہ میں ’’احمد‘‘ کا ظہور ہو چکا ہے؟‘‘ انہوں نے جواب میں اس سے پوچھا’’کون احمد؟‘‘ راہب نے کہا’’عبداللہ بن عبدالمطلب کابیٹا‘‘ اورپھراپنی گفتگوجاری رکھتے ہوئے مزیدکہا’’آجکل یہ وہی زمانہ چل رہاہے جس میں ان کا ظہور طے ہے،وہ آخری نبی ہیں، ان کاظہورتمہارے شہرمیں ہوگا،اورپھروہ ایک ایسی سرزمین کی طرف ہجرت کرجائیں گے جہاںبکثرت کھجوروں کے باغ ہوں گے‘‘۔ ------------------------------ (۱)اُس زمانے میں ملکِ شام روئے زمین کی عظیم ترین قوت ’’سلطنتِ روم‘‘کاحصہ تھا،اوروہاں کے باشندے دیگرتمام رومیوں کی ماننددینِ نصرانیت کے پیروکارتھے۔