اصحاب الرسول صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
تلواروں میں سے ایک تلوارہیں‘‘ اوریوں اس اہم موقع پران دونوں جلیل القدرشخصیات نے تمام لشکرکے سامنے ایک دوسرے کیلئے خیرسگالی ٗ عقیدت ومحبت ٗ اورادب واحترام کے جذبات کااظہارکیا۔ اس کے بعدنئے سپہ سالاریعنی حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کی زیرِقیادت سلطنتِ روم کے خلاف مسلسل پیش قدمی اورفتوحات کایہ سلسلہ جاری رہا…حتیٰ کہ سن پندرہ ہجری میں انہی کی سپہ سالاری میں ’’دمشق‘‘فتح ہوا،اورپھر’’فتحِ بیت المقدس‘‘کاانتہائی یادگاراورعظیم الشان واقعہ پیش آیا۔ اس یادگاراورتاریخی موقع پرجب رومیوں کے ساتھ ایک معاہدے کے نتیجے میں رومیوں کی طرف سے بیت المقدس کی چابی اب مسلمانوں کے حوالے کی جانی تھی، تب خلیفۂ دوم حضرت عمرؓ نے مدینہ میں حضرت علی ؓ کواپنانائب مقررفرمایاتھا اورخودمدینہ سے طویل سفرطے کرتے ہوئے بیت المقدس پہنچے تھے۔ اُس وقت حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ تمام اسلامی لشکرکے سپہ سالارِاعلیٰ تھے…بلکہ اُن دنوں انہیں ’’اَمیرالاُمراء‘‘کے لقب سے بھی یادکیاجاتاتھا…کیونکہ مختلف علاقوں میں بڑی تعدادمیں موجوداسلامی لشکروں کے سپہ سالارانہی کی زیرِنگرانی فرائض انجام دے رہے تھے، نیزیہ کہ سلطنتِ روم کے اس قدروسیع وعریض مفتوحہ علاقوں میں(۱) انہی کاحکم چل رہاتھا…رومیوں کے چھوڑے ہوئے تمام خزانے انہی کے قدموں میں تھے۔ لیکن اس کے باوجودخلیفۂ وقت امیرالمؤمنین حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ جب مدینہ منورہ سے بیت المقدس تشریف لائے اوروہاں انہوں نے اپنی طرف سے مقررفرمودہ سپہ ------------------------------ (۱) یعنی موجودہ ملکِ شام (سوریہ) اردن ٗ فلسطین ٗ لبنان ٗ اورترکی کابڑاحصہ …