اصحاب الرسول صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
بڑی ہیبت ودہشت تھی…ایک موقع پرجب وہ خندق پارکرنے میں کامیاب ہوگیاتھا، اورمسلمانوں کے سامنے پہنچ کرانہیں للکاررہاتھا، تب رسول اللہﷺنے حضرت علیؓ کواس کے مقابلے کیلئے نکلنے کاحکم دیاتھا،اس حکم کی فوری تعمیل کرتے ہوئے آپؓ بلاخوف وخطرغروروتکبرکے اُس پتلے کے سامنے جاکھڑے ہوئے تھے…عبدِوُدنے آپؓ پرتلوار کا بھرپوروارکیاتھا،جس کے نتیجے میں آپؓ کے سرمیں کاری زخم آیاتھااوربڑی مقدارمیں خون بہنے لگاتھا،اسی کیفیت میں آپؓ نے پلٹ کراس دشمنِ خداپرایسا بھرپوروارکیاتھاکہ چشم زدن میں وہ زمین بوس ہوگیاتھا۔ پینتیس سال کاطویل عرصہ گذرجانے کے بعداب کوفہ میں دوبارہ آپؓ کے سرمیں عین اس مقام پرکہ جہاں اُس پرانے زخم کانشان بدستورباقی تھا…اسی جگہ اب تلوارکی ضرب لگی اوراُسی طرح بڑی مقدارمیں خون بہنے لگا۔ لوگوں کوجب اس افسوسناک ترین صورتِ حال کی اطلاع ملی تودیکھتے ہی دیکھتے وہاں جمعِ غفیراکٹھاہوگیا،حضرت علیؓ کواٹھاکرگھرلے جایاگیا…جبکہ قاتل ’’ابن مُلجَم‘‘نے جائے واردات سے فرارہونے کی کوشش کی ،تاہم وہاں موجودمجمع نے اسے موقع پرہی دبوچ لیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اس قاتلانہ حملے میں شدیدزخمی ہونے کے بعددودن موت وزیست کی کشمکش میں مبتلارہے…اس دوران آپؓ نے عام لوگوں کو ٗاوربالخصوص اپنے صاحبزادگان ودیگراہلِ بیت کومتعددوصیتیں فرمائیں،اپنے قاتل کے بارے میں وصیت کرتے ہوئے فرمایاکہ ’’اگرمیری موت واقع ہوگئی توشرعی قوانین کی مکمل پاسداری کرتے ہوئے صرف اسے جائزسزادینا،اس سے زیادہ اسے یااس کے افرادِ خانہ میں سے کسی کوکوئی گزندنہ پہنچانا…اوراگرمیں زندہ رہا تومیں خودفیصلہ کروں گاکہ اسے سزادی جائے،یا