اصحاب الرسول صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
جبکہ حضرت علیؓ نے یہ مشورہ دیاتھاکہ ’’اے امیرالمؤمنین!آپ کووہاں جاناچاہئے ، تاکہ اس طرح فریقین کے مابین خیرسگالی اورباہمی اعتمادواطمینان کے جذبات پروان چڑھ سکیں‘‘۔ حضرت عمرؓ نے اسی رائے کوپسندکرتے ہوئے خودبیت المقدس جانے کافیصلہ فرمایاتھا، اورمدینہ سے اپنی اس غیرموجودگی کے موقع پرحضرت علیؓ کوہی اپنانائب وجانشین مقرر کیاتھا۔ اورپھرحضرت عمرؓ جب قاتلانہ حملے کے نتیجے میں شدیدزخمی ہوگئے تھے، تب اپنی شہادت سے قبل آپؓ نے اپنے جانشین کے طورپرجن چھ افرادکے نام تجویزکرتے ہوئے یہ وصیت کی تھی کہ یہی چھ افرادباہمی مشاورت کے بعدتین دن کے اندرآپس میں سے ہی کسی کو ’’منصبِ خلافت ‘‘کیلئے منتخب کرلیں…انہی چھ افرادمیں حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے۔(۱) اسی طرح خلیفۂ سوم حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت کے دوران بھی حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کوبدستوریہی قدرومنزلت حاصل رہی،حضرت عثمانؓ مختلف دینی وانتظامی امورمیں ہمیشہ حضرت علیؓ سے مشاورت کرتے رہے،جبکہ حضرت علی ؓ بھی ہمیشہ ان کی معاونت کرتے رہے،خصوصاًباغیوں نے جب شورش برپاکی ٗ اس نازک ------------------------------ (۱)وہ چھ افرادیہ تھے:حضرت عثمان بن عفان ،حضرت علی بن ابی طالب ،حضرت عبدالرحمن بن عوف ،حضرت سعدبن ابی وقاص،حضرت طلحہ بن عبیداللہ، حضرت زبیربن العوام۔ رضی اللہ عنہم اجمعین۔اسی نسبت سے یہ حضرات بعدمیں ’’اصحابِ شوریٰ‘‘کہلائے۔واضح ہوکہ اقرباء پروری کے شائبہ سے بچنے کی خاطرحضرت عمرؓ نے ان اصحابِ شوریٰ میں اپنے بیٹے عبداللہؓ نیزاپنے بہنوئی حضرت سعیدبن زیدؓ کوشامل نہیں کیاتھا،حالانکہ حضرت سعیدؓ ’’عشرہ مبشرہ‘‘میں سے تھے۔