اصحاب الرسول صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
الغرض غزوۂ تبوک کے موقع پرخودرسول اللہﷺکے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شریک نہیں ہوئے تھے…جبکہ اس کے سواباقی ہرغزوے میں آپؓ شریک رہے ،بلکہ پیش پیش رہے ،اورشجاعت وجرأت کے بے مثال جوہردکھاتے رہے۔ خصوصاً(سن سات ہجری میں)غزوۂ خیبرکے موقع پرحضرت علیؓ کاکردارہمیشہ ناقابلِ فراموش تصورکیاجاتارہے گا…جب اسلامی لشکرکی وہاں آمدکے موقع پرخیبرکے یہودی قلعہ بندہوکربیٹھ گئے تھے،محاصرہ کافی طول پکڑچکاتھا،صورتِ حال کافی سنگین اورباعثِ تشویش تھی…اس دوران فریقین کے مابین متعدچھوٹی بڑی جھڑپوں کی نوبت آتی رہی،تاہم کوئی خاطرخواہ نتیجہ برآمدنہ ہوسکا…آخرایک روزرسول اللہﷺنے اپنے ساتھیوں کومخاطب کرتے ہوئے ارشادفرمایا:’’لَاُعطِیَنَّ الرّایَۃَ غَداً رَجُلاً یُحِبَّ اللّہَ وَ رَسُولَہٰٗ وَ یُحُبُّہُ اللّہُ وَ رَسُولُہٗ‘‘ یعنی ’’کل میں جھنڈاایسے شخص کوعطاء کروںگاجواللہ اوررسول سے محبت کرتاہے ٗ اوراللہ اوررسول بھی اس سے محبت کرتے ہیں‘‘ ظاہرہے کہ رسول اللہﷺکی طرف سے یہ بہت بڑی خوشخبری تھی ،اوربہت بڑی گواہی تھی اُس شخص کے بارے میں کہ جسے کل علم سونپاجاناتھااورسپہ سالاری وقیادت کی ذمہ داری جس کے حوالے کی جانی تھی …اس کے حق میں یہ بہت بڑی گواہی تھی کہ وہ’’ اللہ اوررسولؐ سے محبت کرتاہے، نیزاللہ اوررسول بھی اس سے محبت کرتے ہیں‘‘۔ چنانچہ لشکرمیں موجودبڑے بڑے صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے وہ رات اسی آرزو ------------------------------ باقی ازحاشیہ صفحہ گذشتہ: اورہم دونوں میں ایک فرق ضرورہے ،وہ یہ کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح حضرت ہارون علیہ السلام کوبھی اللہ کی طرف سے نبوت عطاء کی گئی تھی ،جبکہ میرے بعدکوئی نبی نہیں ہے۔