اصحاب الرسول صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
دیکھتے ہیں کہ میدانِ کارزارمیں وہ ہمیشہ پیش پیش نظرآتے رہے،رسول اللہﷺکی حیاتِ طیبہ کے دوران جتنے بھی غزوات پیش آئے ،ہرموقع پرحضرت علیؓ شریک رہے بلکہ پیش پیش رہے اورجرأت وشجاعت کے بے مثال کارنامے دکھاتے رہے…سوائے غزوۂ تبوک کے (سن ۹ ہجری میں) کیونکہ اُس موقع پرآپﷺنے تبوک کی جانب روانگی کے وقت مدینہ میں حضرت علیؓ کواپنے اہلِ بیت کی حفاظت وخبرگیری کی ذمہ داری سونپی تھی، تب حضرت علیؓ نے عرض کیاتھاکہ : یَا رَسُولَ اللّہ، ھَل تُخَلِّفنِي فِي النِّسَائِ وَ الصِّبیَان؟یعنی’’اے اللہ کے رسول!کیاآپ مجھے عورتوں اوربچوں میں چھوڑے جارہے ہیں؟‘‘ (۱) اس پر آپؐنے جواب دیا: أَمَا تَرضَیٰ أن تَکُونَ مِنِّي بِمَنزِلَۃِ ھَارُونَ مِن مُوسَیٰ؟ غَیرَ أنَّہٗ لَا نَبِيَّ بَعدِي (۲) یعنی’’اے علی!کیاآپ کویہ بات پسندنہیں کہ آپ کی میرے ساتھ وہی نسبت ہوجوہارون علیہ السلام کی موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تھی…؟ ہاں البتہ یہ کہ میرے بعدکوئی نبی نہیں ہے‘‘۔(۳) ------------------------------ (۱)یعنی اس چیزپرافسوس اورپریشانی کااظہارکیا…کہ میں میدانِ جنگ میں مردوں کی طرح لڑنے کی بجائے یہاں مدینہ میں بس عورتوں اوربچوں کے ساتھ بیٹھارہوں…؟؟ (۲) مسندامام احمد[۶/۴۳۸]نیز:صحیح بخاری، کتاب فضائل الصحابہ،باب مناقب علی بن ابی طالب۔ (۳)یعنی حضرت موسیٰ و ہارون ہارون علیہما السلام دونوں بھائی تھے،اورجب اللہ کے حکم کی تعمیل میں حضرت موسیٰ علیہ السلام چالیس راتوں کیلئے کوہِ طورپرگئے تھے ’’تورات‘‘ حاصل کرنے کی غرض سے ، تب اس موقع پرانہوں نے حضرت ہارون علیہ السلام کواپناجانشین مقررفرمایاتھا،لہٰذا اس مثال سے رسول اللہﷺ حضرت علی رضی اللہ عنہ کوبطورِتسلی یہ یاددہانی کراناچاہتے تھے کہ جس طرح وہ دونوں حضرات آپس میں بھائی تھے ، اسی طرح ہم بھی آپس میں (چچازاد)بھائی ہیں ،نیزیہ کہ جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت ہارون علیہ السلام کواپناجانشین مقررکرکے گئے تھے…اسی طرح اے علی میں آپ کوجانشین مقررکرکے جارہاہوں…لہٰذااس میں افسردگی کی توکوئی بات نہیں ہے،بلکہ یہ توخوشی کی بات ہے اوربڑااعزازہے …ہاں ان دونوں حضرات میں (جاری)