ذکر اللہ کے ثمرات |
ہم نوٹ : |
|
سے افضل ہوتی ہیں۔ بعض لوگ ذکر کی کمیّت سے محروم ہیں یعنی ذکر ہی نہیں کرتے اور بعض لوگ ذکر کی کمیّت تو پوری کرلیتے ہیں مگر ذکر کی کیفیتِ خاصّہ یعنی دردِ محبت سے ذکر کا اہتمام نہیں کرتے۔مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ؎ عام می خوانند ہر دم نامِ پاک ایں اثر نہ کند چوں نبود عشق ناک ترجمہ: عام لوگ ذکر کی تعداد تو پوری کرلیتے ہیں لیکن دردِ محبت کے ساتھ والہانہ اور عاشقانہ ذکر نہیں کرتے۔ ایسے ذکر کا نفع اور اثر کامل نہیں ہوتا۔ ذکر کی عاشقانہ کیفیت اللہ والوں کی صحبتوں سے حاصل ہوتی ہے۔والہانہ ذکر اور حالتِ ذکر میں وجد کی کیفیت ارشاد فرمایاکہ مشکوٰۃ کی روایت ہے سَبَقَ الْمُفَرِّدُوْنَ؎ یعنی اہلِ محبت بازی لے گئے جو والہانہ ذکر کرتے ہیں۔ یہ ترجمہ شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ نے فضائلِ ذکر صفحہ ۲۱ میں کیا ہے۔ احقر کو اشکال ہوا کہ شیخ نے المفردون کا ترجمہ والہانہ کہاں سے کیا جبکہ صحابہ کے دریافت کرنے پر کہ مفردون کون لوگ ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: وَ الذّٰکِرِیۡنَ اللہَ کَثِیۡرًا وَّ الذّٰکِرٰتِ ؎ یعنی اللہ تعالیٰ کا کثرت سے ذکر کرنے والے مراد ہیں۔ پھر دل میں خیال ہوا کہ حضرت شیخ نے یہ ترجمہ دلالتِ التزامی سے فرمایا ہے کیوں کہ کثرتِ ذکر کثرتِ محبت کو مستلزم ہے: مَنْ أَحَبَّ شَیْئًا أَ کْثَرَ ذِکْرَہٗ؎ جو شخص جس چیز سے محبت کرتا ہے کثرت سے اس کا ذکر کرتا ہے۔ پھر خیال ہوا کہ ------------------------------