ذکر اللہ کے ثمرات |
ہم نوٹ : |
|
اس لیے نور بجھنے سے پریشانی ہوئی، جیسے لائٹ جانے سے پریشانی ہوتی ہے، اب وہ پاور ہاؤس ٹیلی فون کرتا ہے کہ میں بہت پریشان ہوں، بہت گرمی ہے، فریج بھی خراب ہے، پنکھے بھی بند ہیں، ارے جلدی سے روشنی بھیجو، میں آپ کا بہت شکرگزار ہوں گا، آپ کو بہت دعائیں دوں گا۔ تو ایسے ہی جو بندہ اپنے دل میں نور رکھتا ہے اس کے گناہوں سے جب دل میں اندھیرا آتا ہے تو وہ پریشان ہوجاتا ہے، وہ فوراً وائرلیس کرتا ہے یعنی آہ و نالوں سے،استغفار و توبہ سے اﷲ سے رجوع کرتا ہے کہ اے میرے ربّا! دل میں اندھیرا آگیا، جلدی سے نور بھیج دیجیے، آپ کا شرمسار بندہ تو بہ کررہا ہے، استغفار کررہا ہے اور جو دل میں بالکل نور نہیں رکھتا، اللہ کو یاد ہی نہیں کرتا، اندھیروں پر اندھیرا چڑھا رہا ہے تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے موٹر گیراج میں کام کرنے والے لڑکے کی پتلون پر روشنائی گرادو تو پتا ہی نہیں چلے گا کیوں کہ اس پر پہلے ہی تیل اور گریس کے بے شمار نشانات ہوتے ہیں۔ ایک مردے کو سو جوتے لگادو اور پھر اس کو زبان دے دو تو وہ یہی کہے گا کہ ہمیں تو پتا بھی نہیں چلا۔ تو گناہوں پر احساسِ ندامت نہ ہونا کوئی اچھی چیز نہیں ہے کہ آپ کہیں کہ ہمیں تو پتا بھی نہیں چلتا، ہمیں تو گناہوں سے کوئی پریشانی نہیں ہوتی، یہ دل کے مردہ ہونے کی علامت ہے۔ شیطان کے جوتے کھوپڑی پر لگ رہے ہیں اور کسی کو احساس بھی نہ ہو تو سمجھ لو کہ اس کا دل مردہ ہو رہا ہے، یہ بہت خطرناک حالت ہے۔ذکر اﷲ کے باوجود اطمینان حاصل نہ ہو نے کی وجہ ارشاد فرمایاکہبعض لو گ ذکر کرنے کے باوجود اطمینان سے محروم ہیں جبکہ وعدہ ہے اَلَا بِذِکۡرِ اللہِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ یعنی صرف اﷲ کی یاد ہی میں دل اطمینان پاتے ہیں۔ تو ذکر کے باوجود اطمینان سے محرومی کی کیا وجہ ہے ؟ وجہ یہ ہے کہ ذکر کی دو قسمیں ہیں: ذکرِ مثبت اورذکرِ منفی۔ ذکرِ مثبت تو نماز، رو زہ، ذکر اﷲ، تلا وت و نوافل، صدقہ و خیرات وغیرہ ہے اور ذکرِ منفی گناہوں سے بچنا اور گناہوں سے بچنے کا غم اُٹھانا ہے۔ ذکرکرنے کے باوجود جو لوگ اطمینان سے محروم ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو ذکرِ مثبت تو کرتے ہیں لیکن ذکرِ منفی نہیں کرتے یعنی گناہوں سے نہیں بچتے۔ لہٰذا جب ذکرِ مثبت کے ساتھ ذکرِ منفی بھی ہو گا یعنی جب اذکار ونوافل و تلا وت وغیرہ کے ساتھ گناہوں سے بھی بچنے لگیں گے تب اطمینانِ کامل نصیب ہو گا۔