ذکر اللہ کے ثمرات |
ہم نوٹ : |
|
کردیں، ناغہ سے بے برکتی ہوجاتی ہے البتہ ذکر کا ناغہ اتنا مضر نہیں جتنا ارتکابِ معصیت۔ بس گناہوں سے بچنے کا خاص اہتمام کریں، جان کی بازی لگادیں کیوں کہ اﷲ تعالیٰ کی دوستی گناہوں سے بچنے پر موقوف ہے۔ولایت کا مدار اذکار پر نہیں تقویٰ پر موقوف ہے ارشاد فرمایا کہاس زمانہ میں جبکہ قویٰ میں اضمحلال اور ضعف ہے اب وظائف اور ذکر کی تعداد میں اعتدال ضروری ہے ورنہ صحتِ جسمانی کے متأثر ہونے کے علاوہ رضائے حق بھی حاصل نہ ہوگی کیوں کہ جب ایک باپ کی رحمت کو یہ گوارا نہیں کہ اس کا بیٹا اتنی محنت کرے کہ بیمار پڑجائے تو حق تعالیٰ تو ارحم الرّاحمین ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے احقر کے قلب پر یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح فرمادی ہے کہ ولایت اور ولایت کے تمام مقامات حتّٰی کہ ولایتِ صدیقیت کا مدار اذکار پر نہیں تقویٰ پر ہے ورنہ اِنۡ اَوۡلِیَآؤُہٗۤ اِلَّا الۡمُتَّقُوۡنَ ؎ کی آیت نازل نہ ہوتی۔ اِلَّا الْعَابِدُوْنَ نہیں فرمایا اِلَّا الْمُتَہَجِّدُوْنَ نہیں فرمایا،اِلَّا الْمُتَنَفِّلُوْنَ نہیں فرمایا حتّٰی کہ اِلَّا الذّٰکِرُوْنَبھی نہیں فرمایا۔ معلوم ہوا کہ بنیادِ ولایت تقویٰ ہے البتہ ذکر و اذکار اس کے حصول میں معین ہیں۔ لہٰذا ذکر اتنا کافی ہے جو بقدرتحمل ہو تاکہ دل میں اتنا نور آجائے کہ صدورِ خطا کی ظلمت کا فوراً احساس ہو اور بندہ اس کی تلافی کرلے کیوں کہ ذاکر کو ظلمت کا احساس ہوجاتا ہے۔ معلوم ہوا کہ ذکر معین ہے مقصود کا اور مقصود کیا ہے؟ کہ زندگی کی ہر سانس اﷲ پر فدا ہو اور ایک سانس بھی اﷲ کی ناراضگی میں نہ گزرے یہی کمالِ تقویٰ ہے اور جس کو یہ بات حاصل ہوگئی وہ ولایتِ صدیقیت کی آخری سرحد پر پہنچ گیا جہاں ولایت ختم ہے اور جس کے بعد ولایت کا کوئی درجہ نہیں۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو محض اپنے کرم سے یہ مقام نصیب فرمائے۔جب جان کے لالے پڑتے ہیں ارشاد فرمایا کہ جب مصیبت آتی ہے اور مرض شدید ہوجاتا ہے تو کوئی ------------------------------