ذکر اللہ کے ثمرات |
ہم نوٹ : |
|
کیا گیا کہ فلاں شخص تہجد بھی پڑھتا ہے اور چوری بھی کرتا ہے تو آپ نے فرمایا: اس کی نماز اس کی چوری پر غالب آجائے گی۔ لہٰذا جو لوگ اللہ کا ذکر کررہے ہیں گناہوں کو چھوڑنے کی پوری کوشش کریں تاکہ ذکر اللہ کے ایئرکنڈیشن کا پورا مزہ حاصل ہو لیکن جب تک گناہ نہ چھوٹیں تو نیک کام بھی نہ چھوڑیے۔اگر برائی نہیں چھوٹتی تو بھلائی بھی مت چھوڑیے۔ ذکر وعبادت کیے جائیے۔ ان شاء اللہ!ایک دن اس کی برکت سے گناہ چھوٹ جائیں گے۔ بشرط یہ کہ اخلاص کے ساتھ گناہ چھوڑنے کی پوری کوشش کریں اور اس کی تدابیر بھی کریں۔ یعنی شیخ یا مصلح کو اطلاع کرتے رہیں کہ باوجود ذکر کے، اشراق وتہجد کے ایک گناہ میں بھی مبتلا ہوں مثلاً کسی عورت کو دیکھے بغیر نہیں رہتا، مجال نہیں کہ کوئی عورت گزرے اور میں اس کو نہ دیکھوں۔ شیخ علاج بھی بتائے گا اور اللہ سے روئے گا بھی۔ اس کی دُعا کی برکت سے ان شاء اللہ! ایک دن توبہ نصیب ہوجائے گی۔ذکرِ مثبت اور ذکرِ منفی ارشاد فرمایاکہ اللہ تعالیٰ کی یاد کی دو قسمیں ہیں:۱)یادِ مثبت یعنی امتثالِ اوامر ۲)یادِ منفی یعنی ترکِ نواہی۔ اگر ہم احکام کو بجا لاتے ہیں تو یہ ذکرِ مثبت ہے۔ جیسے نماز کا وقت آگیا تو نماز ادا کرلی اور گناہ چھوڑنا، یہ ذکرِ منفی ہے جیسے نامحرم عورت سامنے آگئی تو نظر بچالی اور اس وقت اللہ تعالیٰ سے سودا کرلیں کہ اے اللہ! بصارت کی حلاوت یعنی آنکھوں کی مٹھاس تو میں نے آپ کو دے دی، اب آپ مجھے حلاوتِ ایمانی یعنی ایمان کی مٹھاس عطا فرمادیجیے۔ذکر اللہ کی لذّت کا کوئی ہمسر نہیں ارشاد فرمایاکہ دلیل یہ ہے کہ جنت مخلوق ہے، حادث ہے اور اللہ تعالیٰ قدیم ہیں اور واجب الوجود ہیں۔ کیا خالق کی لذت کو مخلوق پاسکتی ہے؟ جنت خالق نہیں ہے، مخلوق ہے۔ تو اللہ کے نام کی مٹھاس اور لذت کو مخلوق کیسے پائے گی جبکہ خود فرما رہے ہیں وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌنکرہ تحت النّفی واقع ہورہا ہے جو فائدہ عموم کا دیتا ہے یعنی اللہ کا کوئی ہمسر نہیں تو پھر اللہ کے نام کی لذت کا کیسے کوئی ہمسر ہوسکتا ہے؟ میرا ایک اُردو شعر ہے ؎