ذکر اللہ کے ثمرات |
ہم نوٹ : |
|
وتحمید وقرأتِ کلام اللہ وغیرہ پر۔ (والثانی) اورثانی اللہ کی مخلوق میں غورو فکر کرنا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کی صفات کی معرفت اور ان کی ربوبیت کے اسرارمنکشف ہوں۔ (والثالث) اور تیسرایہ کہ اپنے اعضاء سے اللہ تعالیٰ کے احکام بجالائے اور ان کو نافرمانی سے محفوظ رکھے۔ پس اللہ کا ذکر ان تینوں قسموں پر شامل ہے۔اہلِ حقیقت نےبیان فرمایا ہے کہ ذکر کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی محبت غالب ہوجائے اور ماسوٰی اللہ کی محبت مغلوب ہوکر کالعدم ہوجائے۔ خواجہ صاحب فرماتے ہیں ؎ جب مہرنمایاں ہوا سب چھپ گئے تارے وہ ہم کو بھری بزم میں تنہا نظر آئے اسی حقیقت کا نام تبتُّل شرعی ہے۔ جیسا کہ بیان القرآن میں تحریر ہے کہ تبتُّل نام ہے تعلق مع اللہ کا تعلق ماسوی اللہ پر غالب ہوجانا، نہ کہ ترکِ تعلقاتِ ضروریہ کا۔ جیسا کہ جو گیانِ ہند اور جہلائے صوفیا نے سمجھا ہے۔اذکارووظائف کا مقصد ارشاد فرمایاکہ دین صرف تسبیح گھمانے کا نام نہیں۔ وظائف کا مقصد ہے کہ باریک باریک گناہ نظر آنے لگیں۔ وظائف اسی لیے بتائے جاتے ہیں کہ یہ استعداد پیدا ہوجائے۔ ورنہ اگر اﷲ اﷲ تو کر رہے ہیں لیکن گناہوں سے کوئی پرہیز نہیں تو ایسے وظیفے بالکل بے کار ہیں کیوں کہ ان کا مقصدتو حاصل ہی نہیں ہوا۔ موٹے موٹے گناہ کا علم تو ہر شخص کو ہوتا ہے حتّٰی کہ خود گناہ گار جانتا ہے کہ یہ گناہ ہے۔ کمال تو یہ ہے کہ باریک باریک گناہ نظر آنے لگیں اور ان سے بچنے کا اہتمام طبیعت میں پیدا ہوجائے۔ مفہومِ ذکر اللہ جل شانہٗ(تفسیر روح المعانی کی روشنی میں) وَ الَّذِیۡنَ اِذَا فَعَلُوۡا فَاحِشَۃً اَوۡ ظَلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ ذَکَرُوا اللہَ فَاسۡتَغۡفَرُوۡا لِذُنُوۡبِہِمۡ ۪ وَمَنۡ یَّغۡفِرُ الذُّنُوۡبَ اِلَّا اللہُ ۪۟ وَ لَمۡ یُصِرُّوۡا عَلٰی مَا فَعَلُوۡا وَ ہُمۡ یَعۡلَمُوۡنَ ؎ ------------------------------