ذکر اللہ کے ثمرات |
ہم نوٹ : |
|
بزرگوں نے فرمایا کہ اس زمانہ کے جو صاحبِ نسبت اولیاء اﷲ ہیں ان کی تقلید کرو۔ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ اور امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کے وظائف کی تقلید اس زمانہ میں نہ کرو۔ وہ ستر ہزار وظائف کرتے تھے اور متأثر نہیں ہوتے تھے، ان کی صحت اعلیٰ تھی، بتاؤ صحابہ جیسی صحت ہماری ہے؟ پھر ہم ان کے اعمال کی نقل کیسے کرسکتے ہیں؟ جو حکم ان کو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلّم نے نفلی اعمال میں دیا اس کی تقلید سب پر واجب نہیں ہے جیسے: لَا یَزَالُ لِسَانُکَ رَطْبًا مِّنْ ذِکْرِ اللہِ ؎ کہ ہر وقت تمہاری زبان اﷲ کے ذکر سے تررہے، لیکن اب کوئی ہروقت ذکر کرے تو اس کا دماغ پاگل ہوجائے گا۔ اس لیے دیکھنا چاہیے کہ اُس وقت مخاطَب کون تھے اور اب مخاطَب کون ہیں۔ جو مخاطَب کہ اب سے تیس گنا زیادہ طاقت رکھتے تھے اور بیس کلو ان کے جسم میں خون تھاتو اب وہ ذکر دس کلو خون رکھنے والوں کو کیسے دیا جاسکتا ہے۔ صحابہ کے زمانے میں قوتیں بہت تھیں، اب اس زمانہ میں وہ قوت نہیں ہے تو اب وظائف و نوافل و ذکر میں ان کی نقل جائز نہیں۔ یاد رکھو: یَتَبَدَّلُ الْاَحْکَامُ بِتَبَدُّلِ الزَّمَانِ وَالْمَکَانِ ہاں اصول ایسے بنائے گئے ہیں جن میں کسی تبدیلی کی گنجایش کی ضرورت نہیں۔ جو مغرب کی تین رکعات تھیں وہ اب بھی ہیں اور قیامت تک تین ہی رہیں گی۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ تین کی دورکعات کرلو کہ اب لوگ کمزور ہوگئے ہیں مگر فروعات و مستحبات میں ترمیم ہوجاتی ہے۔ذکرِ قلبی ذکرِ لسانی سے پیدا ہوتا ہے ایک صاحب نے فون پر عرض کیا کہ ذکر قلبی کا مقام توذکر لسانی سے بھی زیادہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن خود اس کا اجر عطا فرمائیں گے اور فرشتوں کو بھی خبر نہ ہوگی۔ فرمایا کہ اﷲ کو ان ہی کا دل یاد کرتا ہے جو پہلے زبان سے یاد کرتے ہیں، جو لوگ زبان سے ذکر نہیں کرتے ان کا دل غافل ہوتا ہے پھر یہی ذکرِ لسانی دل میں اتر جاتا ہے اور پھر دل سے روح میں اتر جاتا ہے۔ جب روح میں ذکر اترجائے تب کام بن جاتا ہے، ذکرِ لسانی و قلبی و روحانی یہی ہے۔ ------------------------------