ذکر اللہ کے ثمرات |
ہم نوٹ : |
|
مشورہ کی ضرورت ہے کہ کتنا ذکر کریں۔ذکر اللہ کا دوسرا حق کیفیتِ ذکر ہے۔ ذکرکمًااورکیفاً کامل ہو یعنی جو مقدار شیخ بتائے وہ مقدار پوری کیجیے۔ الّایہ کہ نزلہ، زکام، بخار ہو یا سفر ہو لیکن بالکل ناغہ پھر بھی نہ کریں۔ جیسے سفر میں اگر کھانا نہیں ملتا تو ایک پیالی چائے اسٹیشن کی پی لیتے ہیں جو بالکل نام کی چائے ہوتی ہے تاکہ زکام نہ ہو۔ اسی طرح سفر میں مجبوری ہے تو چلیے لَااِلٰہَ اِلَّا اللہ کی ایک ہی تسبیح پڑھ لیجیے اور ایک تسبیح اللہ اللہ کرلیجیے۔ بغیر اللہ کا ذکر کیے ہوئے سوجانا مناسب نہیں اور جب حالتِ سفر نہ ہو تو مقدار و کمیت پوری کر لیجیے اور دوسری چیز کیفیت ہے۔ اللہ کا نام محبت سے لیا جائے اور اس کی حسی مثال حضرت مولانا شاہ ابرارالحق صاحب نے یوں پیش فرمائی کہ اگر آپ کو ایک گلاس پانی کی پیاس ہے لیکن کوئی ایک چمچہ پانی پیش کرے تو کیا پیاس بجھے گی؟ معلوم ہوا کہ مقدار بھی پوری ہونی چاہیے۔ اسی طرح اگر پانی تو ایک گلاس بھر کر دیا، مقدار تو پوری کی مگر دھوپ کا جلا ہوا گرم پانی ہو تو بھی پیاس نہیں بجھے گی کیوں کہ کمیت تو صحیح تھی لیکن کیفیت نہیں تھی۔ اسی طرح ذکر کی کمیت و مقدار بھی پوری ہو اور کیفیت بھی صحیح ہو، تب نفع کامل ہوتا ہے۔ جس طرح ہم آپ جسمانی غذاؤں میں سوچتے ہیں کہ کمیت بھی پوری ہو اور کیفیت بھی صحیح ہو۔ مثلاً کباب ہے، اگر وہ ٹھنڈا ہو فریج کا تو مزہ آئے گا؟ گرم کباب ہو، گرم سالن ہو تو مزہ زیادہ آتا ہے۔ذکر اللہ وصول الی اللہ کا ذریعہ ہے ارشادفرمایا کہ اسی طرح جب اللہ اللہ کرتے رہوگے تو ضرور اللہ تک پہنچ جاؤگے۔ ذاکر ایک ہی سانس میں جب اللہ کہتا ہے تو اپنے نام کے صدقہ میں اللہ تعالیٰ اس کو اپنے دروازہ تک پہنچادیتا ہے۔اَلذَّاکِرُ کَالْوَاقِفِ عَلَی الْبَابِ یعنی اَلَّذِیْ ذَکَرَ کَالَّذِیْ وَقَفَ عَلٰی بَابِ اللہِجس نے اللہ کہا وہ اللہ کے دروازے تک پہنچ گیا لیکن دروازہ ابھی نہیں کھلے گا، کھٹکھٹاتے رہو، جب ان کو رحم آجائے گا، دروازہ کھل جائے گا اور حکیم الامّت رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اللہ اللہ کرنے والا ایک نہ ایک دن ضرور صاحبِ نسبت ہوجاتا ہے۔ ذکر کرنے میں تو زمانہ لگ سکتا ہے، سال بھر، چھ مہینہ لیکن فرماتے ہیں کہ جب دروازہ کھلتا ہے، جب نسبت عطا ہوتی ہے تو اس میں تدریج نہیں ہوتی۔ نسبت اچانک عطا ہوتی ہے آنِ واحد میں۔ دنیا میں بھی دیکھیےآپ