ذکر اللہ کے ثمرات |
ہم نوٹ : |
|
وقت ذکر کرنے سے آج کل خشکی بڑھ جاتی ہے، نیند میں کمی آجاتی ہے۔ پہلے زمانے کا ذکر اور وظیفہ اِس زمانہ میں نہیں کرایا جاسکتا ۔ پہلے زمانے میں اتنا خون ہوتا تھا کہ ہر مہینے خون نکلوانا پڑتاتھا اور اب خون کی اتنی کمی ہے کہ خون چڑھوانا پڑتا ہے۔ اس وجہ سے شیخ سے پوچھ لو کہ کتنا وظیفہ پڑھیں اور حکیم الامّت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ شیخ کچھ طبیب بھی ہوکہ صحتِ جسمانی کی حفاظت کا بھی اسے تجربہ ہو۔ جن کا مزاج غیر معتدل ہوگیا وہ بیوی بچوں سے لڑنے لگے،گاہکوں سے لڑنے لگے، دوکان فیل ہوگئی، معاش کے بغیر مفلس اور پریشان ہوگئے۔ذکرِ قلبی اور دوامِ ذکر کی حقیقت ارشاد فرمایاکہ مزاج معتدل ہو، ہر وقت باخدا ہو،دل سے باخدا ہو،یہ ضروری نہیں کہ زبان سے باخدا ہو،یہی ذکرِ قلبی،یہی دوامِ ذکر ہے کہ دل باخدا ہو اور جسم فرماں بردار ہو، کسی نافرمانی میں مبتلا نہ ہو، اگر زبان سے ذکر کرنے کو کوئی شیخ منع کرتا ہے تو سمجھ لو کہ اس کو اندیشہ ہے کہ اگر یہ ذکر کرے گا تو اس کی خشکی بڑھ جائے گی اس لیے ذکر کو منع کررہا ہے۔ پہلے زمانہ کے احکام میں اور اس زمانہ کے احکام میں فرق ہے۔ اصول ایک ہے لیکن فروعات میں کمی بیشی کا اختیار ہے۔ دیوبند میں ایک طالب علم نے جَوکے بغیر چھنے ہوئے آٹے کی روٹی کھالی۔ اس کو پیچش شروع ہوگئی۔ اس نے حضرت مولانا یعقوب صاحب نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ سے شکایت کی کہ حضرت میں نے سنت سمجھ کر جَو کی روٹی کھالی جس سے مجھ کو پیچش ہوگئی۔ انہوں نے فرمایا کیا تمہاری آنتیں صحابہ جیسی ہیں؟ تم کو اس زمانہ کے بزرگوں کی نقل کرنی چاہیے کہ وہ کس کس سنت پر عمل کررہے ہیں۔ جن سنتوں پر اس زمانہ کے اولیاء کرام عمل کررہے ہیں بس ان پر عمل کرو۔ اولیاء اﷲ سے آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرو۔ پہلے زمانہ کے بزرگوں کی نقل بھی جائز نہیں ہے، ان کے قویٰ بہت اچھے تھے وہ زیادہ ذکر کر کے بھی معتدل رہتے تھے بس آج کل کے زمانہ میں سب سے بڑا ذکر گناہوں سے بچنا ہے، متّقی رہو تو چوبیس گھنٹوں کے عبادت گزار رہو گے کیوں کہ تقویٰ نام ہے عدمِ معصیت کا، یہاں کسب نہیں ہے، ترک ہے، یہاں اعمال نہیں ہیں، ترکِ اعمال ہے یعنی گناہ کے اعمال نہ کرو، ترکِ گناہ کرو، ہروقت غم جھیلو، ہر وقت اﷲ کو راضی رکھو، ایسی نسبت عطا ہوگی کہ ہر وقت باخدا رہو گے۔