ذکر اللہ کے ثمرات |
ہم نوٹ : |
|
حسین یاد نہیں آتا۔ اس وقت اللہ والوں سے دعا کراتا ہے کہ میری جان کی حفاظت کی دعا کیجیے۔ جب جان کے لالے پڑتے ہیں تو کوئی لالے یاد نہیں آتے، یہ شریف بندوں کا کام نہیں کہ جب مصیبت پڑے تب ہی اللہ کو یاد کرے۔ حدیث پاک میں ہے: اُذْکُرُوْااللہَ فِی الرَّخَاءِ یَذْکُرْ کُمْ فِی الشِّدَّۃِ؎ تم اللہ کو سُکھ میں یاد کرو اللہ تعالیٰ تمہیں دُکھ میں یاد رکھیں گے۔اللہ تعالیٰ سے محبتِ اشد کی عقلی دلیل ارشاد فرمایا کہ اب اگر کوئی یہ پوچھے کہ اللہ کی محبت زیادہ کیوں ہونی چاہیے اس کی دلیل کیا ہے؟ دلیل یہ ہے کہ یہ ساری نعمتیں کون دیتا ہے؟ اللہ، تو نعمت کی محبت زیادہ ہونی چاہیے یا نعمت دینے والے کی؟ آپ اپنی عقل سے فیصلہ کیجیے۔ بین الاقوامی عقل کا تقاضا یہ ہے کہ نعمت دینے والے کی محبت نعمت سے زیادہ ہونی چاہیے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ذکر کو شکر پر مقدم فرمایافَاذۡکُرُوۡنِیۡۤ اَذۡکُرۡکُمۡ وَ اشۡکُرُوۡا لِیۡ وَ لَا تَکۡفُرُوۡنِ؎ تم مجھ کو یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا۔ اس پر اشکال یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تو سب کو یاد رکھتے ہی ہیں وہ کبھی بھول سکتے ہیں؟ بھولنے والا کبھی خدا نہیں ہوسکتا۔ اللہ تعالیٰ کی شان خطاء ونسیان سے پاک ہے۔ چناں چہ مفسر عظیم حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تم مجھ کو یاد کرو اطاعت سے اُذْکُرُوْنِیْ بِالْاِطَاعَۃِ اَذْکُرْکُمْ بِالْعِنَایَۃِ ؎ ہم تمہیں یاد کریں گے عنایت سے۔ یاد تو ہم کافروں کو بھی رکھتے ہیں مگر کسی کو یاد رکھتے ہیں غضب سے اور کسی کو یاد رکھتے ہیں عنایت سے، جیسے عدالت میں جج پھانسی کا حکم دے رہا ہے اور پھانسی والا سامنے ہے، قریب بھی ہے۔ اسی طرح عدالت میں پیش کار اور خصوصی عملہ بھی سامنے ہے، جج کی نظر دونوں پر ہے لیکن پھانسی والے پر نظرغضب ہے اور دوسروں پر نظر عنایت ہے۔ ------------------------------