ذکر اللہ کے ثمرات |
ہم نوٹ : |
|
صبح و شام کے معمولاتِ ذکر کا راز ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے سرورِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے (ذاکر کی) دو علامتیں بیان فرمائیں یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِیِّ کہ یہ صبح و شام مجھے یاد کرتے ہیں۔ تو یہ صبح وشام کیوں فرمایا؟ یہ کیوں نہیں فرمایا کہ دوپہر کو بھی یاد کرتے ہیں؟ تو بات یہ ہے کہ صبح وشام کا ذکر زیادہ مؤثر اور زیادہ مفید ہے کیوں کہ اس وقت فرشتوں کی ڈیوٹی بدلتی ہے۔ رات بھر جو فرشتے مقرر ہیں صبح اُن کی ڈیوٹی بدل جاتی ہے، یہ آسمان کی طرف واپس جاتے ہیں اور فرشتوں کی دوسری جماعت آتی ہے اور ایسے ہی مغرب کے وقت ڈیوٹی بدلتی ہے تو اللہ تعالیٰ نے صبح وشام کی علامت بتائی کہ میرے عاشق بڑے ہوشیا راور باعقل ہیں۔ یہ چاہتے ہیں کہ جب فرشتوں کی ڈیوٹی بدلے اور یہ مولیٰ کے پاس جائیں تو یہ ہماری حالتِ ذکر کی شہادت اور حالتِ ذکر کی گواہی پیش کریں کہ ہم آپ کے عاشقوں کو آپ کی یاد میں اشکبار اور آپ کے ذکر سے سرشار چھوڑ کر آرہے ہیں لہٰذا اپنی رحمت کا آبشار اپنے عاشقوں پر برسائیے کیوں کہ یہ اپنی بُری بُری خواہشوں کے قلعوں کو مسمار کرچکے ہیں اور اپنے خونِ آرزو سے اپنے دل کو لال کرچکے ہیں،آفاقِ قلب کو سرخ کرکے آپ کے آفتابِ قرب کے مستحق ہوچکے ہیں۔اللہ سے دوری کا عذ اب ارشاد فرمایاکہ اگر اللہ سے ایک ذرّہ تعلّق ختم ہوجائے تو انسان کی حالت کٹی ہوئی پتنگ کی طرح ہوجاتی ہے۔ جب پتنگ کٹ جاتی ہے تو اس کی رفتار بتادیتی ہے کہ اس کی ڈور کٹ گئی۔ جو پتنگ اُڑارہا تھا اس سے اس کا رابطہ ختم ہوگیا۔ اب یہ پتنگ ہواؤں کے تابع ہے۔ جس کا تعلق مولیٰ سے کٹ جاتا ہے یا کمزور ہوجاتا ہے وہ ہوائے نفس کے تابع ہوجاتا ہے جدھر نفس چاہتا ہے ادھر لے جاتا ہے۔ اس کی چال بتادیتی ہے کہ یہ مولیٰ سے کٹا ہوا ہے ؎ اُٹھا کر سر تمہارے آستاں سے زمیں پر گر پڑا میں آسماں سے