ذکر اللہ کے ثمرات |
ہم نوٹ : |
|
نہ آئے تو بہ تکلف ذکر کیے جاؤ، ناغہ نہ کرو۔ دیکھو شروع شروع میں تمباکو کھانے سے قے ہوجاتی ہے، لیکن اگر اس بُری عادت کو جاری رکھے اور تمباکو کھاتا رہے تو ایک زمانہ ایسا آتا ہے کہ کھانا ملے نہ ملے لیکن تمباکو ملنا چاہیے۔ اگر نہیں ملتا تو پان بھنگی سے مانگ کر کھالیتا ہے۔تو فرمایا کہ جب بُری چیز کی عادت نہیں چھوٹتی تو اللہ کے نام کی اچھی عادت ڈالو، مزہ نہ بھی آئے تو بھی ذکر میں ناغہ نہ کرو۔ ایک دن ایسی عادت پڑجائے گی کہ اگر اللہ کا نام لیے بغیر سونا چاہوگے تو نیند نہیں آئے گی جب تک ان کو یاد نہ کرلوگے۔حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ کی بات مان لو، حضرت کےالفاظ تک میں نے یاد کر رکھے ہیں کہ ذکرِ بے لذت سے بھی قلب پر معیتِ خاصہ کا انکشاف ہوجاتا ہے یعنی اللہ کا نام اتنا بڑا نام ہے کہ چاہے کچھ مزہ نہ آئے لیکن ان شاء اللہ! معیتِ خاصہ، ولایتِ خاصہ سے اور نسبتِ خاصہ سے یہ شخص محروم نہیں رہے گا۔ذکرِ بے لذّت کے مفید ہونے کی ایک عجیب مثال ارشاد فرمایا کہجس کو اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مزہ نہیں آتا ہے تو کیا نقصان ہے۔ اگر موتی کے خمیرہ میں کسی کو مزہ نہ آئے تو کیا موتی کا خمیرہ اس کو مفید نہ ہوگا؟ مکہ شریف میں ایک بڑے عالم سے سوال کیا گیا کہ صاحب! میں دارالعلوم چلا رہا ہوں ہزاروں فتنے ہیں۔ اہتمام کی فکر، گھر بار کی فکر، جب اللہ اللہ کرتا ہوں تو دل میں تو تشویش ہوتی ہے، ذکر میں دل ہی نہیں لگتا تو ایسے مشوّش قلب کے ساتھ اللہ کا نام لینے سے کیا فائدہ ہوگا؟ ان عالم صاحب نے مجھ سے فرمایا کہ تم اس کا جواب دو۔ میں نے عرض کیا کہ مکہ شریف میں جتنے دوکاندار ہیں، حج کے چار مہینے کی کمائی سال بھر کھاتے ہیں، اس وقت ان کو اتنی فرصت نہیں ہوتی کہ بیٹھ کر اطمینان سے کھانا کھالیں۔ دس گاہک کھڑے ہیں، دوکاندار صاحب کے منہ میں ڈبل روٹی ہے، کھاتے جارہے ہیں اور تسبیح اور رومال اور ٹوپی گاہکوں کو دے رہے ہیں اور ریال لے رہے ہیں۔ اس تشویش و فکر میں جو روٹی کھارہے ہیں بتائیے اس سے خون بنتا ہے یا نہیں اور وہ زندہ رہتے ہیں یا نہیں؟ اسی طرح ہزار تشویش کے ساتھ اللہ کا نام روح میں نور ہی پیدا کرتا ہے۔ مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہزاروں تشویش کیا اگر غفلت کے ساتھ بھی زبان سے اللہ کا نام نکل جائے تو اثر کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اصلی موتی کا خمیرہ قسم اعلیٰ اگر