ذکر اللہ کے ثمرات |
ہم نوٹ : |
|
ہوتاہے یعنی ان کی محبت خشیت کی پابند تھی۔ معلوم ہوا کہ جب محبت خشیت کی حدود کو توڑتی ہے تو بدعت ہوجاتی ہے۔ اور خشیت کا تضاد تو محبت تھی لیکن حدیث پاک میں محبت کے بجائے ذکر کیوں فرمایا؟ اس لیے کہ ذکر سببِ محبت اور حاصلِ محبت ہے جو ذکر کر ے گا اس سے معلوم ہوگا کہ اس کو محبت حاصل ہے ورنہ جو محبت محبت تو کر رہا ہے لیکن اﷲ کا ذکر نہیں کرتا وہ محبت میں صادق نہیں ، لہٰذا یہاں ذکر کی قید سے منافقین نکل گئے۔ جو صادق فی المحبّت نہیں وہ ذاکر نہیں ہوسکتا۔چھینک آنے پر اَلْحَمْدُ لِلہْ کہنے کی حکمت ارشاد فرمایاکہ میرے شیخ نے فرمایا: ایک مرتبہ مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے طلباء سے دریافت فرمایا کہ جب چھینک آتی ہے تو شریعت نے الحمد للہ کہنے کا حکم کیوں دیا؟ طلباء نے کہا حضرت ! محدثینِ کرام نے لکھا ہے کہ بخاراتِ ردِّیہ جو دماغ میں ہوتے ہیں چھینک آنے سے نکل جاتے ہیں، خروجِ بخاراتِ ردِّیہ سے دماغ کو آرام ملتا ہے اس لیے الحمد ﷲ کہہ کر اﷲ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ایک جواب اللہ تعالیٰ نے میرے دل کو یہ عطا فرمایا کہ چھینکتے وقت انسان کی شکل بگڑ جاتی ہے اور ایسی بگڑتی ہے کہ اگر خدا چھینک کو وہیں روک دے اور پچھلی شکل پر اس کو واپس نہ لائے تو اسے کوئی نہیں پہچان سکتا یہاں تک کہ بیوی بھی گھر میں نہیں گھسنے دے گی کہ یہ کون جانور آرہا ہے تو چھینکنے کے بعد الحمد ﷲ کہنا اسی بات کا شکریہ ہے کہ یا اللہ میری شکل جو بگڑگئی تھی آپ نے دوبارہ اسے درست فرما دیا۔ارادہ پر مراد کا ترتب ہوتا ہے حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کے مجاز ایک عالم ومفتی صاحب نے عرض کیا کہ ذکر پر مداومت نہیں ہے۔ اس کی کیا تدبیر ہے کہ مداومت ہوجائے۔ ارشاد فرمایاکہ مداومت کے لیے آپ کا ارادہ کافی ہے۔ ارادہ مراد تک پہنچاتا ہے ورنہ جو ارادہ نہ کرے تو خانقاہ کے ماحول میں رہ کر بھی ذکر سے غافل رہے گا۔ اللہ کو یاد کیے بغیر چین نہیں آنا چاہیے۔ بڑا منحوس بندہ ہے وہ جو اللہ کو یاد نہیں کرتا۔ جو ذکر نہیں کرے گا ناقص رہے گا اور ناقص مرے گا۔ اس لیے ذکر میں ناغہ نہ کرو۔ اللہ کی یاد روح کی غذا ہے اور ذکر کا ناغہ روح کا فاقہ ہے۔