ذکر اللہ کے ثمرات |
ہم نوٹ : |
|
آئے گا؟ اگر کسی کے عقل میں آجائے کہ خدا یہ ہے تو ہر گز وہ خدا نہیں ہوسکتا۔ کیوں کہ اللہ غیرمحدود ہے وہ محدود عقل میں کیسے آئے گا، اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمادیا کہ خبردار! مخلوق میں تو غور و فکر کرو مگر اللہ کی ذات میں مت سوچو۔ تمہاری قوتِ عقلیہ اور فکریہ محدود ہے۔ بھلا ایک گلاس میں مٹکے کا پانی آسکتا ہے اور مٹکے میں حوض، حوض میں دریا آئے گا؟ دریا میں سمندر بھرسکتے ہو؟ جب چھوٹے محدود میں بڑا محدود نہیں آسکتا تو محدود میں غیرمحدود کیسے آئے گا؟اللہ تعالیٰ کی ذات یاد کرنے کے لیے ہے۔ قرآن کریم میں یَذْکُرُوْنَ اللہْ فرمایا۔ اللہ کویادکیا کرو۔بس اسی یادسےوہ دل میں آجائیں گےاورتمہیں خود پتا چل جائے گا کہ اللہ تعالیٰ کیا ہیں اور غور و فکر مخلوق میں کیا کرو۔ حضرت حکیم الامّت تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ وَیَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتْ کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوا کہ فکر برائے مخلوق ہے اور ذکر برائے خالق ہے۔ اگر اس کے خلاف چلوگے تو گمراہ ہوجاؤگے۔ تو ذکر اللہ کا ایک فائدہ بیان ہوگیا، لہٰذا جب ذکر کی مجلس میں آئیں تو یہ نیت بھی کرلیں کہ چلو فرشتوں کی ملاقات بھی کرلیں۔دوسری فضیلت وَغَشِیَتْہُمُ الرَّحْمَۃْ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت میں اپنے یاد کرنے والوں کو ڈھانپ لیتے ہیں۔ کس طرح ڈھانپتے ہیں؟ دیکھیے: اس جملہ میں بڑا پیار ہے۔ اس کو محبت کے انداز میں سمجھیے۔ماں جب اپنے بچے کو گود میں لیتی ہے تو کس طرح لیتی ہے، لے کر چپکالیتی ہے، اس کے بعد دوپٹہ سے چھپالیتی ہے،پھر ٹھڈی بھی اس کے سر پر رکھ دیتی ہے۔ یہی مفہوم ہے وَغَشِیَتْہُمُ الرَّحْمَۃْ کا کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے ڈھانپ لیتا ہے ؎ نورِ او در یُسر و یُمن و تحت و فوق برسرم بر گرد نم مانندِ طوق اس کا نور ہمارے دائیں بائیں اوپر نیچے گھیر لیتا ہے۔ سر، گردن ہر جگہ مانند طوق اپنی رحمت کے دامن میں چھپالیتے ہیں۔ تو ذکر کی مجلس میں اس نیت سے آؤ کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہمیں ڈھانپ لے اور پیار کرلے۔