ذکر اللہ کے ثمرات |
ہم نوٹ : |
|
تیسری فضیلت وَنَزَلَتْ عَلَیْہِمُ السَّکِیْنَۃْ ہم ان کے دل پر سکینہ نازل کرتے ہیں۔ علامہ سیدمحمودآلوسی رحمۃ اللہ علیہ روح المعانی میں سکینہ کی تفسیر فرماتے ہیں فَاِنَّ السَّکِیْنَۃَ ہِیَ نُوْرٌ یَّسْتَقِرُّ فِی الْقَلْبْ سکینہ ایک نور ہے جو دل میں ٹھہرجاتا ہے۔ یہ دنیا کے نہیں کہ بس مسجد میں تو اللہ والے ہیں اور جہاں مارکیٹ میں گئے مار پیٹ شروع کردی۔ ہر جگہ وہ نور ساتھ ہوتا ہے۔ وَیَثْبُتُ بِہِ التَّوَجُّہُ اِلَی الْحَقِّ جس کو سکینہ کا نور ملتا ہے پھر وہ ہر وقت باخدا رہتا ہے۔ چاہے وہ دنیا کا بھی کام کررہا ہو لیکن وہ خدا کو فراموش نہیں کرتا۔ میرا ایک اُردو شعر ہے ؎ دنیا کے مشغلوں میں بھی یہ باخدا رہے یہ سب کے ساتھ رہ کے بھی سب سے جدا رہے اللہ والے ایسے ہوتے ہیں۔ تو ذکر کی برکت سے سکینہ ملے گا جو ہر وقت دل میں رہنے والا نور ہے۔ پھر آپ کہیں گے ؎ شکر ہے دردِ دل مستقل ہوگیا اب تو شاید مرا دل بھی دل ہوگیا دردِ دل یعنی اللہ کی محبت کا درد جب مستقل ہوجائے گا۔ پھر ایک سیکنڈ بھی آپ اللہ کو نہیں بھولیں گے تو اس لالچ سے بھی آپ مجلسِ ذکر میں آئیے کہ سکینہ مل جائے گا۔ سکینہ کی تعریف کا تیسرا جز وَیَتَخَلَّصُ عَنِ الطَّیْش؎ اور بے سکونی سے نجات پاجائے گا۔ طیش کے معنیٰ بے چینی اور بے قراری کے ہیں۔ کَلْبٌ طَائِشٌ اس کتے کو کہتے ہیں جو ایک سمت پر نہ چلے بلکہ کبھی دائیں کبھی بائیں، اِدھر اُدھر منہ کرکے چلتا ہے تو جس آدمی کے دل میں سکینہ کا نور نہیں ہوتا۔ وہ ایسے ہی اِدھر اُدھر منہ کرکے کبھی اس مکان میں کبھی اس فلیٹ میں تانک جھانک کرتا رہتا ہے کہ شاید کوئی حسین، کوئی ٹیڈی نظر آجائے۔ دل میں سکون نہیں ہے۔ میر ابچپن سے ایک معمول تھا کہ جب امّاں ہمیں دوکان پر بھیجتی کہ جاؤ دھنیا مرچ ------------------------------