ذکر اللہ کے ثمرات |
ہم نوٹ : |
|
درست رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ ذکر خشوع وخضوع کے ساتھ کیا جائے ایسے ہی ذکر کے خاطر خواہ اثرات مرتب ہوں گے۔ ارشاد ہے : اَللّٰہُمَّ افْتَحْ اَقْفَالَ قُلُوْبِنَا بِذِکْرِکَ؎ یعنی اے اللہ! ہمارے دلوں کے تالوں کو کھول دے اپنے ذکر کے ذریعے۔ذکر میں صرف کمیّت نہیں کیفیت بھی مقصود ہے ارشاد فرمایا کہذکر میں صرف کمیت یعنی مقدار وتعداد مطلوب نہیں ہے بلکہ کیفیت بھی مقصود ہے یعنی اللہ کا خیال اور دھیان جس قدر ذکر میں جمایا جائے گااُسی قدر ذاکر کو نفع اور فائدہ ہوگا اور اتنی ہی اس کے طاقت وقوت پیدا ہوگی۔ دیکھیے: لومڑی کس قدر بزدل اور ڈرپوک ہے لیکن شیر اگر اس کی پشت پر ہاتھ پھیر دے اور یہ کہے کہ میں تمہارے ساتھ ہوں تو اس وقت لومڑی چیتے کا جگر بھی نکال سکتی ہے اور اس کے لیے اس کے اندر ہمت پیدا ہو سکتی ہے۔ اسی طرح ذاکر کے ساتھ اللہ کی مدد ونصرت ہوتی ہے اور وہ کسی حال میں تنہائی محسوس نہیں کرتا بلکہ نورِ ذکر کی برکت سے ذاکر اپنے قلب میں حق تعالیٰ کا خاص تعلق محسوس کرتا ہے جس کو مشایخ معیّتِ خاصہ کہتے ہیں، معیّتِ عامہ تو ہر مسلمان کو حاصل ہے۔ذکر کا ناغہ روح کا فاقہ ارشاد فرمایاکہ بھائیو! خدا کا ذکر کرو اور اس کے لیے وقت نکالو۔ اگر کسی شدید ضرورت کی وجہ سے مکمل وظیفہ نہیں پڑھ سکتے تو جتنا ممکن ہو سکے اتنا ہی پڑھ لو، مگر کبھی ناغہ نہ کرو۔ اس لیے کہ ذکر کا ناغہ روح کا فاقہ ہوتا ہے۔ اس سے تمہاری روح کمزور ہوجائے گی اور شیطان غفلت میں ڈال کر خدا سے دور کر دے گا۔ ذکرِ خدا سے روح میں تازگی اور بالیدگی ہوتی ہے، ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ بھائیو! خدا کی یاد میں مشغول رہو اور ہر چیز کو دل ودماغ سے تھوڑی دیر کے لیے سہی، خالی کر کے روزانہ خدا کو یاد کرو۔ حضرت خواجہ عزیز الحسن مجذوب رحمۃ اللہ علیہ اپنی دعاؤں میں یوں کہا کرتے تھے ؎ ------------------------------