ذکر اللہ کے ثمرات |
ہم نوٹ : |
|
رہے گا، اس لیے جب کوئی شخص اللہ سے تعلق قائم کرلیتا ہے اور اسی کو اپنے دل میں بسا لیتا ہے،اس کے ذکر سے اپنی زبان کو تر رکھتا ہے تو اس کی وجہ سے اس کے دل کو دوامِ سکون حاصل ہو جاتا ہے۔ ذکر اللہ کا نور ایسے شخص کے قلب سے ہر طرح کی دنیوی وحشت اور گھبراہٹ کو دور کر دیتا ہے اور حقیقی اطمینان سے اسے ہم کنار کر دیتا ہے۔اصل سرمایہ ذکرِ خدا ہے ارشاد فرمایا کہ بھائیو! یہ دنیا فانی ہے، ہر چیز فنا ہوجائے گی،یہ دنیا دار لوگ جس چیز کو جمع کرنے میں خدا کی یاد کو بھی بھلا بیٹھے ہیں اور جو کچھ دنیا کا سرمایہ جمع کر رہے ہیں یہ چند دنوں کا سرمایہ ہے۔ آنکھ بند ہوتے ہی سب افسانہ ہوجائے گا۔ اصل سرمایہ تو خدا کا ذکر ہے جس کو کبھی فنا نہیں ا ور دنیاوی سرمایہ کو بقا نہیں۔ کتنی فرحت اور شادمانی نصیب ہوتی ہے۔ اس مسرت وفرحت کے مقابلے میں تو دنیا ہیچ نظر آتی ہے۔ اپنا بوریا بھی تختِ سلیمان سے کم نظر نہیں آتا۔ حضرت خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اس استغنااور آسودگی کو کس قدر عمدگی کے ساتھ بیان کیا ہے ؎ خدا کی یاد میں بیٹھے جو سب سے بے غرض ہو کر تو اپنا بوریا بھی پھر ہمیں تختِ سلیماں تھاذکر کی راحت ارشادفرمایا کہ ایک شخص کو بے خوابی کی بیماری تھی، نیند نہیں آتی تھی، وہ یہاں آئے تو نیند آنے لگی اور وہ مجلس میں سونے لگے۔ کسی نے کہا صاحب آپ کو تو نیند نہیں آتی تھی،یہاں تو آپ سو رہے ہیں۔انہوں نے جواب دیا: مجھے تو ایسا لگتا ہے جیسے میں ایئرکنڈیشنڈ کمرے میں داخل ہو گیا ہوں، میرے دل ودماغ کو ٹھنڈک پہنچ رہی ہے۔تو میں نے کہا: یہ ذکر کی برکت ورحمت ہے۔ ذکر سے روح کو سکون ملتا ہے۔ تسبیح لی، ذکر کیا اور نیند آنے لگتیہے اور اگر کوئی سینما اور ناچ دیکھ رہا ہے تو اس کو نیند آئے گی؟ نہیں آئے گی کیوں کہ روح کو عذاب ہورہا ہوتا ہے۔ عذاب میں نیند کیسے آئے گی۔