ذکر اللہ کے ثمرات |
ہم نوٹ : |
|
بھی وہ اﷲ کو ناراض نہ کرے اور اگر کبھی خطا ہوجائے تو رو رو کر اﷲ کو راضی کرے اس کا نام ہے کثرتِ ذکر۔ یہ نہیں کہ تسبیح ہاتھ میں ہے اور عورتوں کو دیکھ رہے ہیں۔ کوئی کرسچین گاہک آگئی ٹانگ کھولے ہوئے تو زبان پر سبحان اﷲ ہے اور نظر اس کی ٹانگ پر ہے۔ یہ ذکر نہیں ہے کہ زبان پر اﷲ اﷲ اور جسم کے دوسرے اعضا نافرمانی میں مشغول۔ اگر جسم کا ایک عضو بھی نافرمانی میں مبتلا ہے تو یہ شخص ذاکر نہیں ہے۔ ذکر، اﷲ کی اطاعت و فرماں برداری کا نام ہے۔ذکر میں غرق فی النور ہونا مطلوب ہے ارشاد فرمایا کہ کثرتِ ذکر سے مراد صرف ذکرِ لسانی نہیں ہے بلکہ ذکر سے مراد یہ ہے کہ قلب و قالب، اعضاء و جوارح، ظاہر و باطن سب تابع فرمانِ الٰہی ہوں۔ اسی پر اطمینانِ قلب موعود ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا ار شاد ہے: اَلَا بِذِکۡرِ اللہِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ ؎ خوب کان کھول کر سن لو کہ دلوں کا اطمینان صرف اﷲ کی یاد میں ہے۔ صاحبِ تفسیرِ مظہری نے بِذِکْرِ اللہِ کی تفسیر فِیْ ذِکْرِ اللہِ کی ہے یعنی اتنا کثرت سے اﷲ کو یا د کرے کہ ذکر کے نور میں غر ق ہوجائے کَمَا تَطْمَئِنُّ السَّمَکَۃُ فِی الْمَاءِ لَابِالْمَاءِ؎ جیسا کہ مچھلیاں بِالْمَاءِ نہیں فِی الْمَاءِ سکون پاتی ہیں یعنی پانی کے ساتھ نہیں بلکہ پانی میں غرق ہو کر سکون پاتی ہیں مثلا ً اگر کسی مچھلی کا پورا جسم پانی میں ڈوبا ہو لیکن سر یا جسم کا کوئی تھو ڑا سا حصہ پانی سے باہر ہو تو وہ بے چین ہو گی اور اس کی حیات خطرے میں ہوگی۔ اسی طرح مو من جب سر سے پیر تک نورِ ذکر میں غرق ہو تا ہے تواطمینانِ کامل پا تا ہے اور اگر کوئی عضو بھی ذکر سے غافل یا اللہ کی نافرمانی میں مبتلا ہے تو اس کا قلب بے چین اور حیاتِ ایمانی خطرہ میں ہوگی۔پس بِذِکْرِاللہِ سے مراد فِیْ ذِکْرِ اللہِ ہے جس کا حاصل غر ق فی النور ہونا ہے یعنی اﷲ کو اتنا کثرت سے یاد کرے کہ ذکر میں غر ق ہو جائے ؎ ہم ذکر میں ڈوبے جاتے ہیں وہ دل میں سمائے جاتے ہیں ذکر سے غرق فی النور ہونا مطلوب ہے جس کی تائید مندرجہ ذیل حدیث سے بھی ہو تی ہے جس میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے دعا مانگی ہے: ------------------------------