ذکر اللہ کے ثمرات |
ہم نوٹ : |
|
تھوڑا سا مقناطیس کا مسالہ لگا ہوتا ہے اس کو کسی طرف کو بھی گھما ؤ وہ اپنا رُخ شمال کی طرف کرلیتی ہے۔ ذکر اﷲ کی برکت سے ہمارے دل کی سوئی میں نور کا ایک مسالہ لگ جائے گا پھر ساری دنیا کے گناہ آپ کو اپنی طرف دعوت دیں تو دل قطب نما کے سوئی کی طرح کانپنے لگے گا اور جب تک توبہ کرکے اپنا رُخ اﷲ کی طرف صحیح نہیں کرے گا ، بے چین رہے گا۔ ذکر کی برکت سے آپ کو ساری دنیا مل کر بھی گمراہ نہیں کرسکتی، ان شاء اﷲ۔ذکر مشورہ سے کیجیے ارشاد فرمایاکہ کسی اللہ والے سے مشورہ کرکے ذکر کرو۔ جب حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ نے یہ بات فرمائی تو خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ایک اشکال پیش کیا کہ حضرت! یہ اللہ والوں کی قید آپ کیوں لگاتے ہیں؟ آدمی خود ہی ذکر کرلے۔ کیا ذکر سے ہم اللہ تک نہیں پہنچ سکتے؟ اب حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ کا جواب سنیے۔ فرمایا کہ بے شک اللہ کے ذکر ہی سے ہم اللہ تک پہنچیں گے۔جس طرح کاٹتی تو تلوار ہی ہے مگر جب کسی سپاہی کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ کاٹے گی تو تلوار ہی، کاٹ تو تلوار ہی سے ہوگا لیکن شرط یہ ہے کہ کسی کے ہاتھ میں ہو۔ اسی طرح کام تو ذکر ہی سے بنے گا لیکن جب کسی اللہ والے کی رہنمائی اور مشورہ سے ہو۔یہ مشورہ لینا انتہائی ضروری ہے ورنہ کتنے لوگ زیادہ ذکر کرکے نفسیاتی بیماری میں مبتلا ہوگئے۔ نیند کم ہوگئی۔ غصہ اور جھنجھلاہٹ پیدا ہوگئی یہاں تک کہ بالکل پاگل ہوگئے۔ لوگوں نے سمجھا کہ مجذوب ہیں لیکن تھے پاگل۔ایسے پاگل دنیا میں جتنے ہوئے ہیں جو بظاہر دیندار اور نیک صورت تھے یہ سب وہی لوگ ہیں جن کا کوئی مربیّ اور مشیر نہیں تھا۔ اللہ والوں کے مشوروں اور راہ نمائی کے بغیر انہوں نے اپنی طاقت سے زیادہ ذکر کرلیا جس سے خشکی پیدا ہوگئی اور دماغ خراب ہوگیا اور جو لوگ کسی اللہ والے کو اپنا مصلح بناتے ہیں اور اس کی نگرانی اور مشورہ کے تحت ذکر کرتے ہیں تو وہ اللہ والا دیکھتا رہتا ہے کہ اس وقت ذکر کرنے والے کی کیا حالت ہے؟ اس حالت کے مطابق وہ ذکر کی تعداد کو کم و بیش کرتا رہتا ہے۔ جیسے ڈرائیور دیکھتا رہتا ہے کہ اب انجن میں پانی نہیں ہے تو جلدی سے گاڑی روکے گا، پانی ڈالے گا اور جب انجن ٹھنڈا ہوجائے گا پھر چلائے گا۔