ذکر اللہ کے ثمرات |
ہم نوٹ : |
|
ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: فِی الْحَدِیْثِ إِیْمَآءٌ إِلٰی اَنَّ مُدَاوَمَۃَ ذِکْرِ الْحَیِّ الَّذِیْ لَا یَمُوْتُ تُوْرِثُ الْحَیَاۃَ الْحَقِیْقِیَّۃَ الَّتِیْ لَا فَنَاءَ لَہَا؎ اللہ تعالیٰ کے ذکر پر مداومت حقیقی زندگی سے آشنا کرتی ہے جس کو کبھی فنا نہیں ہے ؎ ہر گز نمیرد آنکہ دلش زندہ شدبعشق ثبت است بر جریدۂ عالم دوامِ ما یعنی وہ شخص کبھی نہیں مرتا جس کا دل حق تعالیٰ کے عشق سے زندہ ہوگیا۔ جریدۂ عالم پر اس کا نقش غیرفانی ہوتا ہے۔ذکر اللہ سے رتبۂ انسانیت کی معراج ارشاد فرمایاکہایک بار مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں صحابہ کی ایک جماعت اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول تھی۔ بعض ان میں بکھرے ہوئے بالوں والے تھے اور بعض خشک کھالوں والے اور بعض صرف ایک کپڑے والے یعنی ننگے بدن، صرف ایک لنگی ان کے پاس تھی، لیکن اللہ کے ذکر کی برکت سے عنداللہ ان کا مقامِ قبولیت اتنا بلند تھا کہ اللہ تعالیٰ شانہٗ نے ان کے حق میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم پرحسب ذیل آیات نازل فرمائیں: وَ اصۡبِرۡ نَفۡسَکَ مَعَ الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ رَبَّہُمۡ بِالۡغَدٰوۃِ وَ الۡعَشِیِّ؎ جس کا ترجمہ یہ ہے کہ اے نبی(صلی اللہ علیہ وسلم)! آپ اپنی ذاتِ گرامی کو ان لوگوں کے پاس بیٹھنے کا پابند کیجیے جو صبح و شام اپنے رب کو پکارتے ہیں۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کے نازل ہونے پر اپنے دولت کدہ سے نکل کر ان لوگوں کی جستجو فرمائی۔ پس دیکھا کہ ایک جماعت اللہ کے ذکر میں مشغول ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس بیٹھ گئے اور ارشاد فرمایا کہ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جس نے میری اُمت میں ایسے لوگ پیدا فرمادیے کہ خود مجھے ان کے پاس بیٹھنے کا حکم ہے۔؎ ------------------------------