ذکر اللہ کے ثمرات |
ہم نوٹ : |
کیا وجہ ہے تمہارا ایئرکنڈیشن کچھ ناقص ہے؟ ٹھنڈک کیوں نہیں آرہی؟ تو انوارالحق صاحب نے کہا کہ شاید کار کا کوئی شیشہ کھلا ہوا ہے جس سے خارجی گرمی آرہی ہے۔ دیکھا تو میری ہی طرف کا شیشہ تھوڑا سا کھلا ہوا تھا۔ میں نے جلدی سے شیشہ بند کردیا اور تھوڑی دیر میں پوری کار ٹھنڈی ہوگئی۔ گرمی اور لو سے حفاظت ہوگئی۔ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب نے اس پر ایک عجیب بات فرمائی جو قابلِ توجہ ہے کہ دیکھو! ایئرکنڈیشن کا فائدہ تب ہوا جب شیشہ چڑھایا گیا۔ کار میں چار شیشے ہوتے ہیں لیکن انسان میں پانچ شیشے ہیں۔ قوتِ باصرہ (دیکھنے کی قوت) قوتِ سامعہ (سننے کی قوت) قوتِ شامہ (سونگھنے کی قوت) قوتِ ذائقہ (چکھنے کی قوت) قوتِ لامسہ (چھونے کی قوت)۔اللہ کے ذکرکا پورا فائدہ جب ملے گا جب ان پانچوں راستوں پر اللہ کے خوف کا شیشہ چڑھالوگے یعنی جب ان پانچوں قوتوں سے کوئی کام اللہ کی مرضی کے خلاف نہ ہو تو سمجھ لو کہ تقویٰ کا شیشہ چڑھ گیا۔ پھر جب اللہ کا ذکر کروگے، پھر ایک اللہ جب منہ سے نکلے گا تو اتنا مزہ آئے گا کہ جنت سے زیادہ۔ اللہ کا نام لینے میں وہ شخص دنیا کی زمین پر جنت سے زیادہ مزہ پائے گا جو تقویٰ اختیار کرتا ہے۔ذکراللہ کا نفع کامل تقویٰ پر موقوف ہے ارشاد فرمایاکہ ذکراللہ کے ایئرکنڈیشن سے چین وسکون واطمینان کی جو ٹھنڈک دل کو ملتی ہے اس سے یہ ظالم محروم ہیں۔ فرمایا کہ جس دن تقویٰ کا یہ شیشہ حواسِ خمسہ پر چڑھ جائے گا یعنی گناہ چھوٹ جائیں گے اس دن منہ سے ایک اللہ جب نکلے گا تو زمین سے آسمان تک ایئرکنڈیشن بن جائے گا اور دل کو سکون کامل نصیب ہوجائے گا۔ بتائیے کتنا بڑا علم ہے؟ دیکھیے! نئی موٹر تھی۔ نیا ایئرکنڈیشن تھا مگر شیشہ کھلنے سے ایئرکنڈیشن کا نفع کامل نہیں ہوا۔ اسی طرح ذکر اللہ کے ساتھ اگر کوئی گناہ بھی کرتا ہے تو گویا وہ کھڑکی کا شیشہ کھول دیتا ہے جس سے گرمی اندر آنے لگتی ہے اور دل میں کامل سکون حاصل نہیں ہوسکتا۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اگر فی الحال کسی سے گناہ نہیں چھوٹ رہے تو وہ تنگ آکر ذکر ہی چھوڑدے۔ ہرگز ایسا نہ کرے۔ اگر گناہ نہیں چھوٹتے تو ذکراللہ بھی نہ چھوڑے۔ ایک دن یہ ذکر اس سے گناہ چھڑادے گا۔ ایک تہجد گزار چور تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض