ذکر اللہ کے ثمرات |
ہم نوٹ : |
|
کثرتِ ذکر قربِ الٰہی کا موجب ہے ارشاد فرمایاکہ جو جتنا زیادہ خدا کو یاد کرتا ہے اتنا ہی اس کا دریائے قربِ خدا گہرا ہوتا جاتا ہے، اتنا ہی اس کے دریا میں زیادہ پانی آتا ہے اور دریا جتنا گہرا ہوگا مچھلیاں اس میں اتنی ہی عافیت سے رہیں گی، اگر کوئی کم پانی والا مثلاً دو چار فٹ گہرا ندی نالہ ہے تو معمولی سی گرمیوں میں ہی مچھلیاں بے ہوش ہوجائیں گی کیوں کہ سورج کی شعاعیں پانی کو گرم کردیتی ہیں لیکن جو گہرے دریا ہیں ان کی گہرائی میں گرمیوں کے مہینوں یعنی اپریل، مئی، جون میں بھی سورج کی شعاعیں نہیں پہنچتیں۔ تو اگر گرمیوں میں دریا کا اوپر کا حصہ گرم ہوجائے تو مچھلیاں دریا کی گہرائیوں میں ٹھنڈے پانی میں پہنچ جاتی ہیں لیکن جس دریا میں پانی ہی کم ہو تو وہ حوادث سے متأثر ہوجاتی ہیں۔ ایسے ہی جب کمزور ایمان والوں اور اللہ تعالیٰ کو کم یاد کرنے والوں پر دنیا کے حوادث آتے ہیں،آفتیں آتی ہیں، مصیبتیں آتی ہیں تو وہ بدحواس ہو جاتے ہیں کیوں کہ ان کے پاس ذکرکا گہرا دریا نہیں ہوتا کہ وہ ٹھنڈک میں جاکر، گوشۂ خلوت میں جاکر دو رکعت پڑھیں اور اللہ سے روئیں۔ لیکن جنہوں نے عافیت میں اﷲ کو کم یاد کیا تو اگر ان کو تکلیفوں میں اﷲ کو یاد کرنے کی توفیق ہوجائے تو یہ بھی بڑی غنیمت ہے بلکہ اﷲ کی طرف سے انعام ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا اُذۡکُرُوا اللہَ ذِکۡرًا کَثِیۡرًایعنی ہمیں کثرت سے یاد کرنا۔ اور کم یاد کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے کیا فرمایا؟ ذرا ان کا لقب بھی دیکھ لو کہ ان کو کیا ڈگری ملی،ان کے لیے فرماتے ہیں وَلَایَذۡکُرُوۡنَ اللہَ اِلَّا قَلِیۡلًا منافقین اللہ کو یاد نہیں کرتے مگر بہت تھوڑا تاکہ مسلمان انہیں حقیر نہ سمجھیں۔ یعنی منافقین صرف لوگوں کو دکھانے کے لیےاللہ کی عبادت کرتے ہیں۔ذاکر گناہ گار اور غافل گناہ گار میں فرق ارشادفرمایا کہ حکیم الامّت مجدد الملّت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ذاکر گناہ گار میں اور غافل گناہ گار میں فرق یہ ہے کہ غافل کو توبہ نصیب نہیں ہوتی اور جو خدا کو یاد کرتا ہے، اس سے جب خطا ہوتی ہے تو چوں کہ دل میں نور تھا