ذکر اللہ کے ثمرات |
ہم نوٹ : |
|
ذکر اللہ اور صحبتِ شیخ ذکر کے لیے مشورۂ شیخ کی اہمیت ارشاد فرمایاکہ خواجہ عزیز الحسن مجذوب رحمۃ اللہ علیہ نے ایک بار پوچھا کہ حضرت! ذکر کے لیے شیخ کے مشورہ کی کیا ضرورت ہے؟ اللہ کا نام تو بہت بڑا نام ہے، ان کا نام لے کر کیا ہم اللہ والے نہیں بن سکتے؟ کیا ذکر ہم کو خدا تک نہیں پہنچاسکتا؟ اس میں شیخ کا مشورہ کیوں ضروری ہے؟ حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ خواجہ صاحب! اللہ تک تو آپ پہنچیں گے ذکر ہی سے لیکن ایک بات سن لیجیے کہ کاٹتی تو تلوار ہی ہے لیکن کب کاٹتی ہے؟ جب سپاہی کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ سبحان اللہ! کیا مثال دی۔ اُولٰٓئِکَ اٰبَائِیْ فَجِئْنِیْ بِمِثْلِہِمْ۔فرمایا کہ اسی طرح خدا تک تو ذکر ہی سے پہنچیں گے لیکن کسی اللہ والے کے مشورہ سے، اس کی دعائیں اور توجہ بھی شاملِ حال ہوگی، پھر وہ آپ کی دماغی صلاحیت کو بھی دیکھتا ہے کہ یہ کتنا ذکر کرسکتا ہے۔ کتنے لوگ جن کا سچا اور کامل پیر اور مرشد نہیں ہوتا زیادہ ذکر کرکے پاگل ہورہے ہیں۔ لوگ ان کو مجذوب سمجھتے ہیں حالاں کہ وہ مجذوب نہیں ہیں، مجنون ہیں۔ ایک صاحب نے حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ کو لکھا کہ مجھے ذکر میں روشنی نظر آرہی ہے۔ حضرت نے ان کو تحریر فرمایا کہ آپ فوراً ذکر ملتوی کریں اور بادام اور دودھ پئیں اور سر میں تیل کی مالش کریں اور صبح ننگے پاؤں سبزہ پر چلیں اور اپنے دوستوں سے کچھ خوش طبعی کریں۔ مخلوق سے دور تنہائی میں رہتے رہتے اور زیادہ ذکر و فکر کی وجہ سے دماغ میں خشکی بڑھ گئی ہے۔ اس خشکی کی وجہ سے یہ روشنی نظر آرہی ہے۔ یہ ہیں شیخِ محقّق۔ اگر کوئی جاہل پیر ہوتا تو کہتا کہ جب جلوہ نظر آگیا تو اب کھاؤ حلوہ اور لو یہ خلافت لے جاؤ۔ حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ یہ تو خلافت ہی کا اُمیدوار ہوگا لیکن میرے جواب کو دیکھ کر کیا کہے گا۔ معلوم ہوا کہ شیخ کا مشورہ کتنا ضروری ہے۔ دوستو! یہی عرض کرتا ہوں کہ اگر پیر نہ بنائیے تو مشیر بنانے میں کیا حرج ہے۔ یہ حضرت مولانا شاہ ابرارالحق صاحب دامت برکاتہم فرماتے ہیں کسی کو اپنا دینی مشیر بنالیجیے، مشورہ لے لیجیے۔ بیعت ہونا تو سنّت ہے، مگر حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ کسی مصلح کامل سے تعلق میرے نزدیک فرض ہے۔ عادت اللہ یہی ہے کہ اصلاح بغیر اس کے نہیں ہوتی۔