ذکر اللہ کے ثمرات |
ہم نوٹ : |
اور مکاتبت جاری رہنا بھی ضروری ہے۔ چند روز کی محنت ہے پھر راحت ہی راحت دونوں جہاں میں ان شاء اﷲ تعالیٰ عطا ہوگی۔ذکر میں لذّت مقصود نہیں ارشاد فرمایاکہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ذکر کرتا ہوں مگر مزہ نہیں ملتا، دل نہیں لگتا اور یہ سوچ کر بہت سے لوگ ذکر ہی کو ترک کر دیتے ہیں مگر ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ مقصود ذکر کرنا ہے، مزہ کا ملنا نہیں۔ مزہ مل جائے تو یہ انعام خداوندی ہے ورنہ صرف ذکر ہی مقصود اور مطلوب ہے مَنْ اَحَبَّ شَیْئًا اَکْثَرَ ذِکْرَہٗ جو جس چیز کو زیادہ پسند کرتا ہے وہ اسی کا تذکرہ بھی زیادہ کرتا ہے۔ اٹھتے بیٹھتے دوستوں میں جب بھی کہیں کسی سے ملتا ہے تو مختلف طریقوں سے اپنی محبوب اور پسندیدہ چیزوں کا ذکر چھیڑ دیتا ہے۔ میرے بھائی آپ بھی خدا سے محبت کیجیے خدا ا پنی محبت سے ضرور نوازے گا۔ذکر میں دل نہ لگنے کی شکایت ارشادفرمایا کہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ کسی بزرگ سے ان کے مرید نے شکایت کی کہ دل ذکر میں حاضر نہیں رہتا۔ فرمایا کہ اس بات کا شکر کرو کہ ایک عضو (زبان) کو ذکر میں اللہ تعالیٰ نے لگا دیا ہے اور دل کی توجہ کی دعا کرتے رہو۔ احقر عرض کرتا ہے کہ شکر پر وعدہ ہے زیادہ عطا فرمانے کا۔ پس ذکرِ لسانی پر شکر کی برکت سے قلب کی حضوری کی نعمت بھی زیادہ عطا فرمانے کے وعدہ کے ساتھ آجاوے گی۔عقلی وطبعی ذکر وفکر ارشادفرمایا کہعقلی وطبعی محبت میں عقلی محبت کافی ہے اور اللہ تعالیٰ طبعی محبت بھی عطا فرما دیں تو سبحان اللہ! اگر طبعی طور پر کسی کا دل ذکر وفکر میں نہ لگے تو کوشش کر کے دیکھ لو۔ عقلی طور پر ذکر وفکر اور محبت کافی ہے۔ذکر بے لذت بھی نافع ہے ارشادفرمایا کہ حکیم الامّت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر ذکر میں مزہ