ذکر اللہ کے ثمرات |
ہم نوٹ : |
|
دیں لیکن اس ایک رتی کی سوئی میں یہ بلا کی استقامت کیوں ہے ؟ بات یہ ہے کہ اس ننھی سی سوئی میں مقناطیس کی پالش لگی ہوئی ہے۔ پس قطب شمالی پر مقناطیس کا جو خزانہ ہے وہ اس کو اپنی طرف کھینچے رہتا ہے۔ اسی طرح جو سالک ذکر کا اہتمام والتزام و دوام رکھتا ہے اس کے قلب کی سوئی پر اﷲ کے نور کی ایک پالش لگ جاتی ہے۔پھر حق تعالیٰ شانہٗ کا مرکزِ نور اس قلب کی سوئی کو ہمیشہ اپنی طرف کھینچے رکھتا ہے ۔ خواہ سارا زمانہ اس کے قلب کی سوئی کا رُخ تبدیل کرنا چاہے لیکن یہ دل اپنا قبلہ حق تعالیٰ ہی کی طرف مستقیم رکھتا ہے، کیسا ہی ماحول اور کیسا ہی معاشرہ ہو اور کیسی ہی مخالف ہوائیں چل رہی ہوں لیکن اس قلب کی سوئی کو سکون نہیں ملتا جب تک اپنے مولیٰ کی طرف رُخ صحیح نہ کر لے۔ اگر نفس و شیطان ذرا بھی اس کے رُخ کو بدل دیں تو مثل قطب نما کی سوئی کے اس کے دل کی سوئی مضطر ہو جا تی ہے اورا س قدر کرب کا احساس ہو تا ہے کہ کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہےاورساری کائنات تاریک نظر آتی ہے۔ کَمَا قَالَ تَعَالٰی:وَبَلَغَتِ الۡقُلُوۡبُ الۡحَنَاجِرَ؎ اور وَضَاقَتۡ عَلَیۡہِمۡ اَنۡفُسُہُمۡ وَ ظَنُّوۡۤا اَنۡ لَّا مَلۡجَاَ مِنَ اللہِ اِلَّاۤ اِلَیۡہِ ؎ اور ایسے مبارک دلوں کو یقین ہو تا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے سوا ان کی کوئی پناہ گاہ اور کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔ لہٰذا ایسے دل اِستقامت کے لیے مضطر اور مجبور ہوتے ہیں لیکن یہ اضطرار اسی دوام و اہتمامِ ذکر ہی کا ثمرہ ہے۔ چناں چہ جو لوگ ذکر سے غافل ہیں وہ گناہوں سے اس قدر بے چین نہیں ہوتے کیوں کہ جو پہلے ہی سے ظلمت میں ہو اس کو مزید ظلمت سے زیادہ حیرانی نہیں ہوتی۔ اس کے برعکس جو نور میں ہو اور پھر اچانک تاریکی اس کو گھیر لے وہ سخت پریشان ہوجاتا ہے۔ اس مثال کا مشاہدہ اس وقت ہو تا ہے جب اچانک بجلی فیل ہو جا تی ہے تو کس قدر تاریکی کا احساس ہوتا ہے اور جن کے گھر میں بجلی نہیں ہوتی انہیں یہ حیرانی نہیں ہوتی۔قلب کے تالے کی کنجی ارشاد فرمایاکہ ہر اسمِ ذات سے قلب کا قفل کھلتا ہے۔ اسی لیے حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی: ------------------------------