ذکر اللہ کے ثمرات |
ہم نوٹ : |
|
ذکرِ قلیل کی مثال اور اس کا نقصان ارشاد فرمایاکہبعض لو گ تھوڑے ذکر پر قناعت کرتے ہیں لیکن یہ منافقین کی علامت ہے: وَ لَا یَذۡکُرُوۡنَ اللہَ اِلَّا قَلِیۡلًا ؎ وہ اﷲ کو بہت کم یا د کر تے ہیں۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فضائلِ ذکر میں لکھا ہے کہ زیادہ ذکر کرنے والا نفاق سے بری لکھا جاتا ہے۔ قلیل ذکر کرنے والوں کی مثال تھو ڑ ے پانی میں رہنے والی مچھلیوں کی سی ہے جو گرمی کے زمانے میں پانی کے شدید گرم ہوجانے سے بے ہو ش ہوجا تی ہیں اور شکاری ان کا شکار کر لیتے ہیں کیوں کہ قلیل ذکر سے نور بھی قلیل پیدا ہو تا ہے اور قلیل نور میں رہنے والی ارواح آ فاتِ خارجیہ سے متأثر ہو جا تی ہیں اور معاشرے کے زہریلے اثرات ان کو ہلاک کر دیتے ہیں اور کثیر ذکر کرنے والے یعنی دل و جان سے اﷲ تعالیٰ پر فدا ہونے والوں کی مثال گہرے دریا میں رہنے والی مچھلیوں کی سی ہے کہ سورج کی شعاعوں سے سطحِ آب جب گرم ہو جا تی ہے تو وہ غو طہ لگا کر دریا کی گہرائی میں چلی جا تی ہیں اور ٹھنڈے پانی میں پناہ لے لیتی ہیں۔ یہی حال ان لوگوں کا ہے جو کثرت سے اﷲ کا ذکر کرتے ہیں یعنی قلباً اور قالباً خدائے تعالیٰ پر فدا ہیں، ہمہ وقت طا عت میں غرق اور معاصی سے کنارہ کش ہیں اور خطاؤں پہ اشکبار اور نالہ زن ہیں، ان کا دریائے نور اتنا گہرا ہو تا ہے کہ معاشرے کے زہریلے اثرات ان پر اثر انداز نہیں ہوتے۔خدا کو ہر وقت یاد رکھنا اﷲ کے عاشقوں کا کام ہے ارشاد فرمایاکہ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ دائم اندر آب کارِ ماہی است مار را با او کجا ہمراہی است ------------------------------