ذکر اللہ کے ثمرات |
ہم نوٹ : |
جس طرح ہر وقت پانی میں رہنا مچھلیوں کا کام ہے اسی طرح ہر وقت خدائے تعالیٰ کی یاد میں رہنااللہ والی مچھلیوں کا کام ہے یعنی اللہ والی روحوں کا کام ہے جو حق تعالیٰ کی عاشق ہیں۔ ورنہ سانپ کو مچھلی کا مقابلہ کرنے کی کہاں سے جرأت ہوسکتی ہے، مار معنیٰ سانپ کے ہیں۔ جیسے کہتے ہیں یہ مارِ آستین ہے یعنی آستین کا سانپ ہے، اس سے ڈرو۔ تو مار یعنی سانپ کو مچھلی کے ساتھ مقابلہ کرنے اور پانی میں ہروقت رہنے کی طاقت کہاں سے آسکتی ہے، کیوں کہ اس کے اندر زہر بھرا ہوا ہے اور زہر کا تقاضا ہے کہ وہ لوگوں کو ڈستا پھرے اور مچھلیاں جو ہیں وہ بالکل خیر ہیں، سوائے کانٹے کی ایک کنگھی کے، لیکن پھر بھی وہ کھائی جاتی ہیں، لیکن اگر سانپ کو کوئی کھائے گا تو مر جائے گا۔ تو مچھلی کو اللہ تعالیٰ نے یہ شرف بخشا ہے کہ پانی میں ہر وقت رہنا ان ہی کا کام ہے اور سانپ کو مچھلی کے برابر کہاں ہمراہی اور رفاقت نصیب ہوسکتی ہے۔ اسی لیے مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ اللہ والوں کو فرماتے ہیں ؎ ماہیانِ قعرِ دریائے جلال اللہ تعالیٰ کے دریائے قرب کی گہرائیوں میں یہ مچھلیاں یعنی اللہ والے اتنا ذکر کرتے ہیں کہ ان کے پاس نور کا دریا بہتا ہے۔ اس سے متعلق ایک شاعر کا شعر ہے ؎ شاہوں کے سروں میں تاجِ گراں سے درد سا اکثر رہتا ہے اور اہلِ صفا کے سینوں میں اک نور کا دریا بہتا ہےتکثیرِ ذکر تکمیلِ محبت کے لیے وسیلۂ کاملہ ہے ارشاد فرمایا کہ مَنْ اَحَبَّ شَیْئًا اَکْثَرَ ذِکْرَہٗ ؎ جو کسی سے محبت کرتا ہے تو اس کا کثرت سے ذکر کرتا ہے۔تکثیرِ ذکر جس طرح محبتِ کاملہ کے لیے علامتِ لازمہ ہے اسی طرح تکمیلِ محبت کے لیے تکثیرِ ذکر ہی وسیلۂ کاملہ ہے۔تکرار ذکرِ بسیط کا اَوْقَعْ فِی النَّفْسْ ہونا اور اِذَا تَکَرَّرَ تَقَرَّرَ سے رسوخِ نسبت کا حصول اولیائے امّت سے علیٰ سبیلِ تواتر ثابت ہے۔ ------------------------------