ذکر اللہ کے ثمرات |
ہم نوٹ : |
|
لَاۤاِلٰہَ اِلَّا اللہْ کا ایئرکنڈیشن ارشاد فرمایاکہ ایئرکنڈیشن کے دو کام ہیں: ۱)گرمی کو باہر پھینکنا اور ۲)کمرہ میں ٹھنڈک پید اکرنا۔ اللہ تعالیٰ نے لَاۤاِلٰہَ اِلَّا اللہْ کا جو ایئرکنڈیشن ہمیں عطا فرمایا ہے اس کے بھی دو کام ہیں کہ لَاۤاِلٰہَ سے غیر اللہ کی گرمی کو قلب سے باہر پھینکنا اور گرمی کے ساتھ اندھیروں کو بھی نکالنا۔ اس کے بعد پھر اِلَّا اللہْ سے قلب میں ٹھنڈک بھی عطا ہوتی ہے اور نور اور اُجالا بھی پیدا ہوتا ہے پس جو لَاۤاِلٰہَ سے گرمی کو قلب سے باہر نہیں پھینکے گا اس کا قلب اِلَّا اللہْ سے ٹھنڈا نہیں ہوگا۔ آج کل اکثر لوگ لَاۤاِلٰہَ کی ضرب تو ہلکی لگاتے ہیں اور اِلَّا اللہْ کی ضرب زور سے لگاتے ہیں یعنی غیر اللہ سے بچنے کا مجاہدہ و مشقت کم اٹھاتے ہیں اور ذکر وعبادت کا خوب اہتمام کرتے ہیں لیکن اس ہمت چوری سے وہ صاحب نسبت نہیں ہورہے ہیں کیوں کہ اللہ کی دوستی کی بنیاد کثرتِ ذکر پر نہیں، صرف گناہ چھوڑنے پر ہے۔ ایک شخص ایک لاکھ ذکرُ اللہ اور ہر سال حج وعمرہ کرتا ہے لیکن سڑکوں پر کسی کالی گوری کو نہیں چھوڑتا، بدنگاہی کرتا ہےیہ شخص اللہ کا ولی نہیں ہے۔ اگر یہ اللہ کا ولی ہوتا تو ان لیلاؤں کو کبھی نہ دیکھتا۔ مولیٰ کو پانے والا لیلیٰ چور نہیں ہوتا، سورج کو پانے والا ستارہ چور نہیں ہوسکتا۔ جس طرح کسی دنیوی بادشاہ اور سلطان کے بارے میں یہ خبر آئے کہ اس نے ایک سبزی والے کے ٹھیلہ سے ایک آلو چُرالیاتو اس کا کوئی یقین نہیں کرے گا کیوں کہ ایک بادشاہ جو کروڑوں کی سلطنت رکھتا ہے آلو چور نہیں ہوسکتا ۔اسی طرح وہ مولیٰ اور خالقِ نمکیاتِ لیلائے کائنات جس کے دل میں ہوگا وہ لیلیٰ چورنہیں ہوسکتا کیوں کہ دُنیوی حُسن کی اس کے دل میں کوئی وقعت نہیں رہتی۔ ایک صاحب نے مجھ سے سوال کیا کہ ہمارا اِلَّا اللہْ کیسے تگڑا ہو۔ اس کا کیا طریقہ ہے؟ میں نے کہا کہ جتنا آپ کا لَااِلٰہَ تگڑا ہوگا اتنا ہی اِلَّا اللہْتگڑا ہوگا۔ غیر اللہ سے دل جتناپاک ہوگا اتنا ہی اللہ کی تجلی سے معمور ہوگا۔ پس غیر اللہ سے جان چھڑانے میں جان لڑادو، حسینوں سے بچنے میں جتنا غم اٹھاؤ گے اور اس غم سے جتنا دل شکستہ ہوگا اتنا ہی اِلَّا اللہْ کی تجلی دل کے ذرّہ ذرّہ میں نفوذ کرجائے گی۔ مثبت ذکر یعنی عباداتِ نافلہ کا حکم اسی لیے دیا گیا کہ جس وقت گناہ سے بچنے میں، حسینوں سے نظر بچانے سے دل ٹکڑے ٹکڑے ہوگا اس وقت وہ نورِ ذکر دل