ذکر اللہ کے ثمرات |
ہم نوٹ : |
|
بغیر اللہ کو دیکھے اللہ پر مرے جارہے ہیں، اللہ کو یاد کررہے ہیں لہٰذا عالمِ غیب کے ذکر کو ترجیح دیتے ہیں۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ عشق من پیدا و دلبر ناپدید ہمارا عشق ظاہر ہے اور ہمارا محبوب پوشیدہ ہے۔اللہ کو دیکھا نہیں مگر اس کے لیے جاڑوں میں وضو کررہے ہیں۔ نماز، روزہ، حج و زکوٰۃ ادا کررہے ہیں تو فرماتے ہیں ؎ در دو عالم ایں چنیں دلبر کہ دید دونوں عالم میں ایسا کوئی محبوب دکھاؤ کہ جس کو دیکھے بغیر اس پر سر برس رہے ہوں اور جہاں وہ پاؤں رکھتا ہو وہاں سر برستے ہوں۔ ذرا اللہ تعالیٰ جہاد فرض کردیں پھر دیکھو کہ مسلمان کی کیا شان ہے اور بغیر دیکھے وہ کیسے اللہ پر جانیں فدا کرتے ہیں ؎ جو تجھ بن نہ جینے کو کہتے تھے ہم سو اس عہد کو ہم وفا کر چلے اور اُحد کے دامن میں ستر صحابہ ایک ہی دن میں شہید ہوگئے اور ان سب کی نماز جنازہ سرورِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھائی۔ اس وقت ہر جنازہ سے بزبانِ حال یہ آواز آرہی تھی۔ بزبانِ حال یادرکھنا ورنہ آپ کہیں گے کہ ان کو اُردو کہاں سے آتی تھی ؎ ان کے کوچہ سے لے چل جنازہ مرا جان دی میں نے جن کی خوشی کے لیے بے خودی چاہیے بندگی کے لیے میاں بغیر دیوانگی اور محبت کے محض عقل سے اللہ نہیں ملتا۔ اکبر الٰہ آبادی کہتے ہیں جو جج اور گریجویٹ تھے، ان کا شعر ہے ؎ تُو دل میں تو آتا ہے سمجھ میں نہیں آتا میں جان گیا بس تری پہچان یہی ہے اور عقل میں جو آجائے وہ خدا ہو ہی نہیں سکتا کیوں کہ عقل محدود ہے۔ محدود میں غیرمحدود کیسے