ذکر اللہ کے ثمرات |
ہم نوٹ : |
|
اَللّٰھُمَّ افْتَحْ اَقْفَالَ قُلُوْبِنَا بِذِکْرِکَ ؎ اے اﷲ! ہمارے قلوب کے تالوں کو کھول دیجیے اپنے ذکر سے۔ اور جب تالا کھلتا ہے تب دروازے کے اندر کا خزانہ نظر آتا ہے۔ جب ذکر کی برکت سے دل کا تالا کھلے گا تب خزانۂ قربِ الٰہی کا اِدراک ہوگا۔ اور تا لا اس صندوق پر لگتا ہے جس میں قیمتی چیز ہو ۔ معلوم ہوا کہ قلوب میں بڑی قیمتی امانت رکھی ہوئی ہے۔ پھر کنجی کی قیمت سے امانت کی قیمت کا پتا چلتا ہے۔ قیمتی تالے کی کنجی بھی قیمتی ہوتی ہے۔ ذکر جیسی انمول کنجی سے جس کا تالا کھلے گا اس میں کیا کچھ قیمتی چیز ہو گی اور وہ تعلق مع اﷲ اور محبتِ الٰہیہ کی قیمتی امانت ہے جو عالمِ ازل میںاَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ فرما کر قلوب میں رکھ دی تھی ؎ کہیں کون و مکاں میں جو نہ رکھی جا سکی اے دل غضب دیکھا وہ چنگاری مر ی مٹی میں شامل کی جن کی امانت تھی ان ہی کے نام کی کنجی ان کے رسول سید الا نبیاءصلی اللہ علیہ وسلم سے ملی۔ اس قیمتی کنجی کو روس اور امریکا اور جملہ اہلِ کفر اپنی سائنسی ایجادات سے نہ پا سکے اور قیامت تک نہ پا سکیں گے اگر حالتِ کفر میں رہے۔ کنجی سے تالا کھلتا ہے اور تالا کھلنے پر دروازہ کھلتا ہے اور دروازہ کھلنے پر وہ قیمتی چیز ہاتھ آتی ہے جو اس کے اندر ہو تی ہے اور وہ حق تعالیٰ شانہٗ کی معیّتِ خاصہ کا انکشاف ہے یعنی جب دل کا تالا کھلتا ہے تو گویا دل کی آنکھوں سے وہ اﷲ کو دیکھتا ہے۔جس کو محدّث عظیم علامہ ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرما تے ہیں: اَنْ تَغْلِبَ عَلَیْہِ مُشَاہَدَۃُ الْحَقِّ حَتّٰی کَاَنَّہٗ یَرَی اللہَ تَعَالٰی شَانُہٗ؎ یعنی مشاہدۂ حق ایسا غالب ہو جاتا ہے کہ گویا وہ اﷲ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے۔پس جب ذاکر کے منہ سے نکلتا ہے ’’اﷲ‘‘ تو گویا وہ کہتا ہے کہ اے رب! اپنا دروازہ کھولیے۔ ملا علی قاری فرماتے ہیں اَلذَّاکِرُ کَالْوَاقِفِ عَلَی الْبَابِ جو ذکر کرتا ہے گویا وہ اﷲ تعالیٰ کے دروازے پر پہنچ گیا اورگویا وہ ان کے دروازے کو کھٹکھٹا رہا ہے یعنی یہ ذکر ہی ان کے دروازے کو کھٹکھٹانا ہے۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ ------------------------------