ذکر اللہ کے ثمرات |
ہم نوٹ : |
|
قرآن و حدیث سے مدلّل نہ ہو وہ تصوّف ہی نہیں۔مشکوٰۃ شریف کی روایت ہے۔سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: لَاۤاِلٰہَ اِلَّا اللہُ لَیْسَ لَھَا حِجَابٌ دُوْنَ اللہِ لَاۤاِلٰہَ اِلَّا اللہْاور اللہ میں کوئی پردہ نہیں ہے۔ یعنی لَاۤاِلٰہَ اِلَّا اللہْساتوں آسمان پار کرکے عرشِ اعظم ہی تک نہیں پہنچتی ربِ عرشِ اعظم سے ملتی ہے ؎ اسی حسرت میں جیے اور مرے ہم بے پردہ نظارہ ہو کبھی دیدۂ سر سے دیدۂ دل سے تو اللہ والوں کو نظارہ نصیب ہوتا ہی ہے مگر دلِ بے تاب کی تمنا ہے کہ دیدۂ سر سے بھی نظارہ ہو۔ خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ نہیں کرتے ہیں وعدہ دید کا وہ حشر سے پہلے دل بے تاب کی ضد ہے ابھی ہوتی یہیں ہوتی پھر حسرت پیکان نگہ اے دلِ ناداں اب تک تو ٹپکتا ہے لہو دیدۂ تر سے اے دلِ ناداں! تو پھر اس تجلئ خاص کی تمنا کررہا ہے جو حالتِ ذکر میں وارد ہوئی تھی جس کے اثر سے ابھی تک دیدۂ تر سے لہو گررہا ہے کہ تو دوبارہ جلوہ دیکھنا چاہتا ہے۔ کیا کہوں، یہ اشعار میرے شیخ شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نہایت کیف سے پڑھا کرتے تھے جن کی خدمت میں میری زندگی کے سترہ سال گزرے ہیں۔ ۳) جب لَاۤاِلٰہَ اِلَّا اللہْ کہیں تو سمجھ لیں کہ ہم سارے عالم سے الگ ہوگئے ؎ رہتے ہیں ہم جہاں میں یوں جیسے یہاں کوئی نہیں سوچیں کہ لَاۤاِلٰہَ سے سارا عالم ختم ہوگیا بس ہم ہیں اور ہمارا اللہ ہے۔ آخر میں دعا کرلیں کہ ہم نے غیر اللہ کو دل سے نکالا لیکن اے اللہ ہم سے کیا نکلے گا، ہم کمزور ہیں جس طرح کمزور بچہ ابّا کو پکارتا ہے بندہ کمزور ہے تو ربّا کو پکارے کہ اے میرے