ذکر اللہ کے ثمرات |
ہم نوٹ : |
|
لکیر کا فقیر نہ ہونا چاہیے۔ جس زمانے میں لوگ اتنے قوی تھے کہ ہر سال خون نکلواتے تھے اس زمانہ کے وظائف اور اذکار اگر کوئی شیخ اس زمانہ میں بتاتا ہے جو خون چڑھوانے کا زمانہ ہے تو چشم دید دیکھا ہے کہ ضربیں لگانے سے اور کثرتِ ذکر سے کتنوں کی گردنیں اکڑ گئیں، سر میں درد رہنے لگا اور کتنے پاگل ہوگئے۔ لہٰذااس زمانہ میں لمبے لمبے وظیفے نہ بتاؤ۔ سب سے بڑا وظیفہ اور سب سے بڑا ذکر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ناراض نہ کیجیے، کوئی حرکت اور کوئی فعل ایسا نہ کرو جس سے مالک ناراض ہوجائے، جو اللہ کو ناراض نہیں کرتا، حرام سے بچتا ہے وہ سب سے بڑا ذاکر ہے، سب سے بڑا عابد ہے اگرچہ اس کی زبان ہر وقت ذکر اللہ سے تر نہیں رہتی۔ اگرچہ نوافل بھی زیادہ نہیں پڑھتا۔ تھوڑا سا ذکر کرتا ہے لیکن ہر گناہ سے بچتا ہے یہ اصلی ذاکر ہے لہٰذا لَاۤاِلٰہَ سے باطل خداؤں کو اور بُری خواہشات کو دونوں قسم کےغیر اللہ کو دل سے نکالیے اور اِلَّا اللہْ کہتے وقت اللہ کی تجلیات کا مراقبہ کریں کہ عرشِ اعظم سے ایک نور کا ستون آرہا ہے جو میرے قلب سے لگا ہوا ہے جس سے اللہ کا نور میرے قلب میں داخل ہورہا ہے۔ لَاۤاِلٰہَ کی نفی عجیب ہے کہ عرشِ اعظم تک جاتی ہے اور عرشِ اعظم سے اللہ کا نور لے کر آتی ہے۔ مولانا بدر عالم صاحب مہاجر مدنی اکابراولیاء اللہ میں سے ہیں، ترجمان السنۃ میں فرماتے ہیں کہ لَاۤاِلٰہَ کی تلوار اتنی تیز ہے کہ ساتوں آسمان پار کرکے عرشِ اعظم تک جاتی ہے۔ اگر وہاں بھی اللہ کو نہ پاتی تو عرشِ اعظم سے آگے بڑھ جاتی لیکن وہاں تجلیاتِ الٰہیہ دیکھ کرٹھہر جاتی ہے ؎ نظر وہ ہے جو اس کون و مکاں کے پار ہوجائے مگر جب روئے تاباں پر پڑے بے کار ہوجائے ترے جلوؤں کے آگے ہمتِ شرح و بیاں رکھ دی زبان بے نگاہ رکھ دی نگاہ بے زباں رکھ دی ۲)اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ لَاۤاِلٰہَ اِلَّا اللہْکہتے وقت یہ مراقبہ کریں کہ لَاۤاِلٰہَ اِلَّا اللہْ ساتوں آسمان پار کرکے براہِ راست اللہ تعالیٰ سے ملاقات کررہی ہے اور یہ کوئی جاہلانہ تصوف نہیں مدلّل بالحدیث ہے۔ فرمانِ نبوت کے مطابق تصوّف کو مدلّل پیش کرتا ہوں۔ جو تصوّف