ہوسکتا، اسے بھوک پیاس سے پہلے محبت کا جوہر حاصل ہوتا ہے، بچہ ماں کے پیٹ سے جو پہلی چیز لے کر آتا ہے وہ محبت ہے ، اسے ماں سے محبت ہوتی ہے، باپ سے محبت ہوتی ہے ، خود اپنی ذات سے محبت ہوتی ہے، پھر جوں جوں وقت گزرتا ہے، اس کا جسم نشوونما پاتا ہے، اس کی محبت کا دائرہ وسیع ہوتا جاتا ہے، لیکن اس کی محبت کا منشا خود اس کی ذات ، اس کی اغراض، اس کے فوائد ومنافع ہوتے ہیں ، وہ اپنے گرد وپیش میں بہت کچھ پاتا ہے ، پھر جس میں اپنا نفع دیکھتا ہے ، اس سے محبت کرتا ہے ، کچھ اس کے جسم کے تقاضے ہوتے ہیں ، کچھ اس کے قلب وروح کے تقاضے ہوتے ہیں ، کچھ جسمانی ونفسانی لذات کے تقاضے ہوتے ہیں ، جہاں جہاں سے ان تقاضوں کو پورا ہوتے دیکھتا ہے وہاں وہاں محبت ٹوٹی پڑتی ہے، لیکن ان سب تقاضوں سے بالاترتقاضا اس کے خالق ومالک کی طرف سے ہوتاہے ، کیونکہ اس کی تمام ضروریات بلکہ وجود اور وجود کے تمام لوازم کی بخشش اس ذات عالی کی جانب سے ہے ، پس اسے اصلاً اسی کی محبت حاصل ہے ، پھر جہاں تک اس کا حکم پہونچتا ہے، محض اسی کے واسطے سے محبت کا سلسلہ بڑھتا جاتا ہے۔
دنیا کی ہر چیز فانی ہے ، اس کے تقاضے بھی فانی ہیں ، پس اس نسبت کی ہر محبت فنا وزوال کے داغ سے داغدار ہے ، اﷲ کی ذات باقی ہے ، اس کی محبت، اور اس کی نسبت سے ہر محبت باقی رہنے والی ہے ، فنا ہوجانے والی چیزسخت باعث تکلیف ہے ، کیونکہ محبت میں محبوب کا چھوٹ جانا سخت ناگوار ہوتا ہے، اور فانی کو آخر چھوٹنا ہے ، پس اس کی ایذا رسانی یقینی ہے ، اﷲ باقی ہے، اس کی نسبت باقی ہے، پس یہ محبت دائمی اور ابدی ہے، اس کا لطف اور اس کی لذت بھی دائمی اور ابدی ہے، تو جو محبت اﷲ کے لئے کی گئی وہ انسان کو عرش الٰہی کے سایہ میں کھڑا کردیتی ہے۔
پس تم اپنی محبت کا جائزہ لو،کہ جس کسی سے محبت کرتے ہو اس کی بنیاد کیا ہے؟ اگر خداوند تعالیٰ کی محبت کے علاوہ اس کی کوئی اور بنیاد ہے تو اسے پہلی فرصت میں جلادو، پھونک دو، دل میں صرف وہی محبت رہے جومحض اﷲ کے لئے ہے ، اس سے دل کو زندگی ملتی ہے،