دیتی ہے ، لوگ خریداری کرتے رہتے ہیں ، بعض لوگ مقروض بھی ہوجاتے ہیں ، ہوائی جہاز میں ایک محدود وزن کی اجازت ہوتی ہے ، اس سے زیادہ پر اچھا خاصا محصول لگتا ہے، جب یہ سامان حاجی باندھ لیتا ہے ، تو اس کی سانس پھولنے لگتی ہے، کیونکہ مقررہ وزن سے سامان بڑھ گیا ہے ، اب رقم ختم ہوگئی ہے، محصول کیسے ادا ہوگا ، اور اگر رقم ہوتی تو فلاں فلاں چیز رہ گئی ہے ، اسے نہ خرید لیتے ، اب پریشان ہیں ، دعا کرتے ہٰں ، دعا کراتے ہیں ۔ بار بار اس کا تذکرہ کرتے ہیں ۔
ایک بار مدینہ طیبہ سے واپسی تھی ، حجاج الگ بس پر بیٹھے ، سامان دوسری گاڑی پر لاددیا گیا ، سب کے سامان زیادہ تھے ،ا یرپورٹ پر بس رکی ، اب حجاج کی سانس اٹک رہی ہے ، خدا کرے سامان تولا ہی نہ جائے ، ہاں ایسا ہی ہوتا ہے ، سعودی فلائٹ والے اﷲ کریم کہہ کر سب لے لیتے ہیں ، لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تولنے لگ جائیں ، ان کاموڈ ہے ، پھر بغیر محصول کے ہرگز نہ جانے دیں گے ، حاجیوں میں یہی کھچڑی پک رہی ہے ، ایک دوسرے سے دعا کرارہے ہیں ، دیر کے بعد دیکھا گیا کہ سامان وزن کی جگہ سے آگے بڑھ رہا ہے ، اب تول نہ ہوگی ، حاجیوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ، اور ایک دوسرے کو اس طرح مبارکباد دینے لگے جیسے اسی وقت حج ہوا ہو۔
اس سال ایک حاجی صاحب کو دیکھاکہ ہونٹ خشک ہیں ، چہرے پر ہوائیاں اُڑ رہی ہیں ، ادھر سے ادھر بھاگ رہے ہیں ، کسی کو پہچان نہیں رہے ہیں ، بات کیا ہے ؟ سامان زیادہ ہے اور تولنے والا قبول نہیں کررہا ہے ، بہت خوشامد کے بعد اس نے قبول کرلیا، تب اطمینان ہوا۔
جوسامان یہ لوگ خریدتے ہیں ، وہ اپنے ملک میں بھی ملتا ہے ، مکہ مکرمہ کا ایک تحفہ ہے ، آب زمزم، اور مدینہ شریف کا ایک تحفہ ہے ، کھجوریں ۔ ان کے علاوہ بکثرت فضولیات ہوتے ہیں ، ان فضولیات میں لوگ از حد پریشان ہوتے ہیں ، میں یہ نہیں کہتا کہ سامانوں کی خریداری غلط ہے ، لیکن فلائٹ کا اصول اور اپنی اوقات تو دیکھنی چاہئے ، پھر سفر حج سے ایک