ڈالدیں ، اسے آپ نے ذلت وخواری میں غرق کردیا ، اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ۔
اب کائنات انسانی کے دوسرے طبقے کا تذکرہ کتاب الٰہی میں پڑھئے: إِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصَّالِحَاتِ یَھْدِیْھِمْ رَبُّھُمْ بِاِیْمَانِھِمْ ، تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھِمُ الْاَنْھَارُ فِیْ جَنّٰتِ الْنَّعِیْمِ دَعْوَاھُمْ فِیْھَا سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَتَحِیَّتُھُمْ فِیْھَا سَلَامٌ وَآخِرُ دَعْوَاھُمْ أَنِ الْحَمْدُ ﷲِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ ،( سورہ یونس: ۹؍۱۰) بے شک جولوگ ایمان لائے اور انھوں نے اچھے کام کئے ، ان کے کام کی بدولت ان کا رب راہ ہدایت پر انھیں چلاتا ہے ، نعمتوں کی جنت میں ان کے نیچے نہریں بہتی ہیں ، اس میں ان کی پکار سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّہے ، اور ان کی مبارکباد سلام ہے ، اور آخری پکار اَلْحَمْدُ ﷲِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ ہوگی۔
ان دونوں طبقوں کے درمیان خط فاصل اور امتیازی نشان کفر اورایمان ہے، یہیں سے دونوں کی راہیں الگ ہوتی ہیں ،ایک راہ کی انتہا ابد الآباد کی جہنم ہے ، اوردوسری راہ کی انتہا دائمی عیش وراحت کی جنت ہے ۔
دنیا کے موافق اور ناموافق حالات سب پر آتے ہیں ، خواہ وہ لوگ ہوں جوکفر وشرک کی راہ پر چل رہے ہوں اور خواہ وہ لوگ ہوں جو ایمان وعمل صالح کی شاہراہ پر گامزن ہوں ۔ لیکن ایمان اور کفر کی بنیاد پر ان حالات کے آثار ونتائج الگ الگ ہوتے ہیں ۔ اس سلسلے میں رسول اکرم ا کا ایک فرمان والا شان ملاحظہ کیجئے، امام مسلم علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب الجامع الصحیح کی کتاب الزہد میں مشہور صحابی ٔ رسول حضرت صہیب صکے حوالے سے نقل کیا ہے کہ رسول اکرم ا نے فرمایا کہ : عجباً لامرالمومن، إن أمرہ کلہ لہ خیر ولیس ذلک لأحد إلا للمومن إن أصابتہ سراء شکر فکان خیراً لہ وإن أصابتہ ضراء صبر فکان خیراً لہ ،مومن کا حال بھی عجیب ہے ، اس کا سب حال اس کے لئے خیر ہے ، اور یہ بات مومن کے علاوہ اور کسی کو حاصل نہیں ہے، اگر وہ خوشحال ہوتا ہے ، تو شکر کرتا ہے ، اور اس کے لئے خیر ہوتا ہے، اوراگر بدحالی میں گرفتار ہوتا ہے تو صبر کرتا ہے ، پس یہ بھی اس کے حق میں خیر ہوتا ہے۔