اخبارات میں تفصیلات آچکی ہیں ، ظلم وبربریت کی چکی جو چلی ہے ، اس نے انسانیت کو ، رحم ومروت کے جذبات کو پیس کر رکھ دیا ہے ، لیکن کیا ان مظالم کی وجہ سے مسلمان ختم ہوجائے گا، اسلام مٹ جائے گا، واﷲ ایسا نہ ہوگا، یہ اہل اسلام کے لئے ایک آزمائشی دور ہے، کاش ان آزمائشوں کے نتیجے میں اپنے پروردگار کی طرف رجوع ہوتے ، اسے راضی کرتے ، واقعی وہ سب پر غلبہ رکھتا ہے، اور اس کی ذات لائق حمد ہے ، آسمان وزمین سب اس کے حکم وارشاد کے ماتحت ہیں ، نہ یہاں کی حکومت، نہ یہاں کے باشندے ، یہ یہاں کا قانون ، کوئی درد کی دوا نہیں ہے ، درد کی دوا خود ان کے پاس ہے ، وہ ہے اﷲ کی طرف پلٹنا۔ فَفِرُّوْا إِلَی اﷲِ،( سورۂ ذاریات:۵۰) اﷲ کی طرف بھاگو۔ اس کے احکام وفرامین کا مجموعہ تمہارے پاس موجود ہے، نفسانی خواہشات اور مال وجاہ کی حرص وہوس کو چھوڑ کر اﷲ کی اطاعت پر جمع ہوجاؤ، اﷲ کو راضی کرو، اسی کے حضور روؤ ،گڑاگڑاؤ ، اور کسی کا خوف دل میں نہ لاؤ، وہی ہر درد کا علاج ہے۔
مسلمان اﷲ کی اطاعت کرتا ہے، اور اﷲ ہی پر بھروسہ کرتا ہے ، اﷲ کے علاوہ نہ کسی کا خوف اس کے دل میں ہوتا ہے، اور نہ کسی سے امید رکھتا ہے، مشکل یہ ہے کہ ہم سے اﷲ تعالیٰ کے احکام کی بجاآوری تو ہوتی نہیں ، اور اپنی مرضی کے موافق اس سے مدد چاہتے ہیں ، معاملہ دونوں طرف سے ہوتا ہے، اِدھر سے عبادت واطاعت اور اُدھر سے نصرت واجابت! حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :
وَإِذَا سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّی فَإِنِّیْ قَرِیْبٌ أُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ إِذَا دَعَان فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْابِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ۔( سورۃ البقرۃ: ۱۸۶)
اور جب میرے بندے میرے بارے میں تم سے پوچھیں ، تو میں قریب ہوں ، دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں ، تو انھیں چاہئے کہ میری بات مانیں اور مجھ پر یقین رکھیں تاکہ وہ راہ راست پر رہیں ۔ (اپریل ۲۰۰۲ء [ محرم ۱۴۲۳])
٭٭٭٭٭