اصحاب الرسول صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کو انتہائی قریبی اورقابلِ اعتمادساتھی اورخصوصی مشیرکی حیثیت حاصل رہی،حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کوحضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کے مشورے ٗ فہم وفراست ٗ دوراندیشی ٗ اوراصابتِ رائے پرہمیشہ مکمل بھروسہ اوراطمینان رہا۔ چنانچہ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے انتقال سے چندروزقبل مہاجرین وانصار میں سے کبارِصحابہ کے ساتھ مشاورت اورغوروفکرکے بعدیہ وصیت فرمائی کہ میرے بعد عمر بن خطاب مسلمانوں کے خلیفہ کی حیثیت سے فرائض انجام دیں گے۔ اس پربعض افرادنے اظہارِخیال کرتے ہوئے یوں کہاکہ ’’عمرکے بارے میں ہمیں کوئی ترددتونہیں ہے… البتہ یہ کہ ان کے مزاج میں سختی ہے‘‘۔ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: ’’عمرکی سختی اس لئے ہے کہ میں نرم ہوں،جب ساری ذمہ داری ان پرہوگی ، تووہ خودہی نرم ہوجائیں گے‘‘۔ اس کے بعدمزیدفرمایا:’’اگراللہ نے پوچھا،تویہ جواب دوں گاکہ اپنے بعد ایسے شخص کومسلمانوں کافرمانروا بناکرآیاہوں جوتیرے بندوں میں سب سے بہتر ہے‘‘ ۔ جس روزحضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کاانتقال ہوا،اسی روزیعنی ۲۲/جمادیٰ الثانیہ سن ۱۳ہجری بروزپیرمدینہ میں تمام مسلمانوں نے حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پربیعت کی۔ خلافت کی ذمہ داریاں سنبھالتے ہی حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے لوگوںکے سامنے اپنے مختصرخطاب میں کہا: ’’لوگو!تمہارے معاملات کی اب تمامترذمہ داری میرے شانوں پررکھدی گئی ہے،اس لئے میری تمام سختی اب نرمی میں بدل چکی ہے،جوکوئی امن وامان اورسلامتی کے ساتھ رہناچاہے،میں اس کیلئے انتہائی نرم ہوں ،البتہ جولوگ دوسروں پرظلم وزیادتی کرتے ہیں ،